رواں ہفتے فن لینڈ میں ہونے والی امریکہ روس سربراہی ملاقات کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مؤقف پر کئی روز گزرنے کے باوجود امریکہ میں تنقید اور وائٹ ہاؤس کی جانب سے وضاحتوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
بدھ کو وائٹ ہاؤس میں کابینہ کے اجلاس کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ رواں ہفتے فن لینڈ میں ہونے والی ملاقات کے دوران انہوں نے روسی صدر ولادی میر پوٹن سے کہہ دیا تھا کہ وہ امریکی انتخابات سے دور رہیں اور صدر کے بقول، "ایسا ہی ہوگا۔"
صدر نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ امریکہ کی تاریخ میں ایسا کوئی صدر نہیں گزرا جس نے روس کے خلاف اتنا سخت موقف اپنایا ہو جتنا انہوں نے اپنایا ہے۔
تاہم اسی پریس بریفنگ کے دوران ایک صحافی کے سوال پر کہ کیا روس اب بھی امریکی انتخابی عمل کو نشانہ بنا رہا ہے، صدر ٹرمپ نے جواب دیا، "آپ کا بہت شکریہ۔ نہیں۔"
امریکی صدر کا یہ موقف امریکی انٹیلی جنس اداروں کے موقف کے برعکس ہے جو خبردار کرچکے ہیں 2016ء کے صدارتی انتخابات کی طرح روس، رواں سال نومبر میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات پر بھی اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔
لیکن صدر ٹرمپ کے اس بیان اور اس پر ذرائع ابلاغ میں تنقید شروع ہونے کے کچھ گھنٹے بعد وائٹ ہاؤس نے وضاحت کی کہ صدر کا وہ مطلب نہیں تھا جو سمجھا گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے پریس بریفنگ روم میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ترجمان سارہ ہکابی سینڈرز نے کہا کہ صدر نے درحقیقت سوال کا جواب دینے سے انکار کیا تھا اور ان کے "نہیں" مطلب یہ نہیں تھا کہ روس مداخلت نہیں کر رہا۔
وائٹ ہاؤس کے اس موقف پر تابڑ توڑ سوالات کے بعد ترجمان نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف صدر کے کہے گئے الفاظ کی تشریح کر رہی ہیں اور صدر کا کوئی بیان واپس نہیں لے رہیں۔
تاہم وائس آف امریکہ کے نمائندے اسٹیو ہرمن کے مطابق وائٹ ہاؤس کی ترجمان کی اس وضاحت سے وہاں موجود بیشتر صحافی مطمئن نہیں تھے۔
اسٹیو ہرمن کے مطابق کابینہ کے اجلاس کی کوریج کے لیے موجود صحافیوں میں سے بعض کا کہنا تھا کہ صدر نے جس طرح سے "نہیں" کہا تھا اس سے واضح تھا کہ انہوں نے سوال کا ہی جواب دیا ہے۔
ترجمان کی بریفنگ کے کچھ دیر بعد وائٹ ہاؤس کے جنوبی باغیچے میں صحافیوں کا صدر ٹرمپ سے دوبارہ اس وقت ٹاکرا ہوگیا جب وہ خاتونِ اول میلانیا ٹرمپ کے ہمراہ ہیلی کاپٹر سے اتر کر وائٹ ہاؤس کی طرف جارہے تھے۔
اس موقع پر بھی صحافیوں نے صدر ٹرمپ سے سوال کیا کہ وہ اصل میں کہنا کیا چاہتے تھے لیکن صدر نے صحافیوں کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔
پیر کو ہیلسنکی میں روسی صدر کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ کے موقف کو ری پبلکن اور ڈیموکریٹ ارکانِ کانگریس، اعلیٰ سطحی سابق انٹیلی جنس اور فوجی حکام اور سابق سفارت کار کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
اپنی اس پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ امریکی انٹیلی جنس اداروں کے اس موقف سے متفق نہیں کہ روس نے 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کی تھی۔
اپنے اس بیان پر کڑی تنقید کے بعد صدر ٹرمپ عملاً اس بیان سے پلٹ گئے تھے اور انہوں نے منگل کو کہا تھا کہ وہ صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت سے متعلق امریکی انٹیلی جنس اداروں کی رائے سے متفق ہیں۔
تاہم صدر ٹرمپ کی اس وضاحت کے باوجود روس سے متعلق ان کے موقف پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے اور وہ بھی مسلسل باہم متصادم بیانات دیے چلے جارہے ہیں۔
بدھ کو امریکی ٹی وی 'سی بی ایس' نے صدر ٹرمپ کا ایک انٹرویو بھی نشر کیا جس میں صدر کا کہنا تھا کہ یہ سچ ہے کہ روس نے 2016ء میں امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کی تھی۔
اپنے انٹرویو میں صدر نے کہا تھا کہ وہ اس مداخلت کا ذمہ دار صدر ولادی میر پوٹن کو قرار دیں گے کیوں کہ روس کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے یہ ان کی ذمہ داری بنتی ہے۔
امریکہ کی نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر ڈین کوٹس نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ روس اور دیگر ملک امریکی کاروباری اداروں، حکومت اور دیگر شعبوں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ڈین کوٹس نے روس کی مداخلت کو "مستقل اور کثیر الجہتی" قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ "روس کی اس جارحیت کا مقصد امریکہ کی جمہوریت کو روز کی بنیاد پر نقصان پہنچانا ہے۔"