وائٹ ہاؤس نے امریکہ اور بھارت کے باہمی تعلقات کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان تعلقات کو امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے نیوز بریفنگ میں کہا کہ صدر جو بائیڈن دونوں ممالک کے دیرینہ تعلقات کا احترام کرتے ہیں اور انہیں اہمیت دیتے ہیں۔ یہ تعلقات آگے بھی قائم رہیں گے۔
یہ بیان جو بائیڈن اور کاملا ہیرس کی حلف برداری کے دو روز بعد سامنے آیا ہے۔
پریس سکرٹری نے کہا کہ صدر جو بائیڈن نے متعدد بار بھارت کا دورہ کیا ہے۔
جین ساکی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بھارتی نژاد کاملا ہیرس کا امریکہ کا نائب صدر منتخب ہونا امریکیوں کے لیے تاریخی لمحہ ہے۔ ان کے بحیثیت نائب صدر کام کرنے سے امریکہ بھارت تعلقات اور مضبوط ہوں گے اور ان کی اہمیت میں اضافہ ہو گا۔
یاد رہے کہ نائب صدر کے علاوہ بائیڈن ٹیم کے 20 ارکان بھی بھارتی نژاد ہیں۔ جس پر بھارت میں بعض مبصرین نے اظہارِ مسرت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی موجودگی کی وجہ سے بھی بھارت امریکہ تعلقات آگے بڑھیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایک سابق سفارت کار پناک رنجن چکرورتی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ کاملا ہیرس اور بائیڈن ٹیم کے 20 ارکان بھارتی نژاد ہیں۔
ان کے بقول وہ امریکی ہیں اور امریکی شہری کی حیثیت سے سوچیں گے۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بائیڈن دور میں بھی باہمی تعلقات آگے بڑھیں گے۔ اس وقت جو عالمی نظام قائم ہو رہا ہے اس کے پیشِ نظر اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ دونوں ممالک کے تعلقات اور اچھے ہوں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بعض امور پر، جن میں بھارت کو تجارتی مراعات دینا، ایچ ون-بی ویزہ کا معاملہ، ایران سے تیل کی درآمد اور روس سے ایس-400 میزائل نظام کی خریداری وغیرہ شامل ہیں، اختلافات ہیں۔
پناک رنجن نے مزید کہا کہ دنیا میں کوئی ایسے دو ممالک نہیں ہوں گے جن میں بعض امور پر اختلافات نہ ہوں۔ بھارت اور امریکہ کے درمیان بھی کچھ معاملات پر اتفاق رائے نہیں ہے۔ لیکن یہ اختلافات باہمی تعلقات پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔ اختلافات کو گفت و شنید سے حل کیا جاتا ہے۔
ایک اور سابق سفارت کار وشنو پرکاش بھی بائیڈن دور میں دونوں ممالک کے تعلقات کے مزید مضبوط ہونے کی امید ظاہر کرتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وشنو پرکاش کہتے ہیں کہ دونوں ممالک میں تجارتی معاہدہ بھی ہو جانا چاہیے۔ تاکہ تجارت و سرمایہ کاری میں اضافہ ہو۔
نئی دہلی کے بعض دیگر مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت کی نظر اس بات پر بھی ہو گی کہ بائیڈن انتظامیہ انڈو پیسفک خطے کے سلسلے میں کیا پالیسی اختیار کرتی ہے اور یہ کہ وہ جنوبی ایشیا میں چین کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت کو روکنے کے لیے کوئی قدم اٹھاتی ہے یا نہیں۔