امریکہ کے نائب وزیرِ خارجہ اسٹیفن بیگن نے چین کو پریشانی کھڑی کرنے والا ملک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان اسٹرٹیجک تعلقات پر چین کے ردِ عمل کے بارے میں امریکہ اور بھارت بہت محتاط ہیں۔
اسٹیفن بیگن اس وقت نئی دہلی کے تین روزہ سرکاری دورے پر ہیں۔ اُن کا یہ دورہ امریکہ کے وزیرِ خارجہ اور وزیرِ دفاع کے نئی دہلی کے متوقع دورے سے قبل ہو رہا ہے۔
منگل کو نئی دہلی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسٹیفن بیگن نے کہا کہ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ مستقبل کے بارے میں سوچتے ہوئے امریکہ بھارت کے ساتھ سیکیورٹی تعلقات کے حوالے سے بہت مواقع دیکھتا ہے۔
اُن کے بقول بھارت اسٹریٹیجک خود مختاری کی ایک مضبوط اور قابلِ فخر روایت رکھتا ہے اور ہم اس کا احترام کرتے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ بھارت کی روایات کو تبدیل نہیں کرنا چاہتی۔ بلکہ ہم ایشیا پیسیفک خطے میں ان روایات کو با اختیار بنانا اور اپنی خود مختاری اور جمہوریت کے دفاع میں بھارت کی صلاحیت اور اس کے مفادات کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
اس سلسلے میں انہوں نے گزشتہ ہفتے جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں بھارت، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات اور اس موقع پر امریکی و بھارتی وزرائے خارجہ کی ملاقات کا بھی ذکر کیا۔
امریکی نائب وزیرِ خارجہ کے اس بیان پر بین الاقوامی امور کے ایک سینئر تجزیہ کار رہیس سنگھ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا "ایسا لگتا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ وہ چین کے خلاف جو محاذ بنانے کی کوشش کر رہا ہے اس میں بھارت بھی شامل ہو۔"
اُن کے بقول بھارت کی اپنی خارجہ پالیسی ہے۔ البتہ بھارت اور امریکہ کے باہمی رشتے مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'ٹو پلس ٹو' کی پالیسی کا جہاں تک سوال ہے تو بھارت کے پیشِ نظر یہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات کیسے مزید مضبوط ہوتے ہیں۔ ٹو پلس ٹو کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چین کے خلاف اس کا استعمال کیا جائے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت انڈو پیسیفک خطے میں اپنے تحفظ کی خاطر اپنی پالیسی لے کر چلنا چاہتا ہے۔
ایک اور سینئر تجزیہ کار اسد مرزا کہتے ہیں کہ اسٹیفن بیگن کے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ انڈو پیسیفک خطے میں بھارت کو قابلِ قدر اہمیت دے رہا ہے اور وہ اسے یہاں اہم کردار دینا چاہتا ہے۔
ان کے بقول کرونا وائرس سے متعلق چار ملکی اجلاس 26 اور 27 اکتوبر کو نئی دہلی میں ہونے والا ہے۔ اس میں امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ گزشتہ ہفتے ٹوکیو میں اس کا ایک اجلاس ہوا تھا۔ لیکن آئندہ اجلاس میں ان ملکوں کے وزرائے خارجہ و وزرائے دفاع شامل ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ امریکہ ان ممالک کے تعاون سے چین کا خطے میں بڑھتا ہوا اثر و رُسوخ کم کرنا چاہتا ہے۔
اُن کے بقول امریکہ چاہتا ہے کہ اس مقصد کے لیے یہ چاروں ملک ایک ایسا طریقہ وضع کریں جس میں امریکہ کی شمولیت کم سے کم ہو اور وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر چین کی سرگرمیوں کا راستہ روک سکیں۔
اسد مرزا نے مزید کہا کہ امریکہ اس خطے میں چین کے مقابلے میں اگر کسی ملک کو دیکھتا ہے تو وہ بھارت ہے۔
قبل ازیں پیر کو بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے پیر کو امریکی نائب وزیرِ خارجہ سے ملاقات کی اور باہمی و عالمی امور پر تبادلۂ خیال کیا۔
خیال رہے کہ اسٹیفن بیگن بھارت کے دورے کے بعد بنگلہ دیش کے دورے پر جائیں گے۔