افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے ایک ہفتے بعد طالبان نے اب عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا ہے جس میں محمد احسن اخوند کو عبوری مدت کے لیے وزیرِ اعظم مقرر کیا گیا ہے۔
افغان طالبان کی عبوری حکومت اہم طالبان رہنما اور دوحۂ معاہدے پر دستخط کرنے والے ملا عبدالغنی برادر کو عبوری نائب وزیرِاعظم بنایا گیا ہے۔
البتہ تحریک طالبان افغانستان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ اب تک منظر عام سے غائب ہیں۔ ان کے حوالے سے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کہتے ہیں کہ وہ قندھار میں ہیں اور انہوں نے از خود تمام تقرریوں کا فیصلہ کیا ہے۔
ملا ہیبت اللہ اخونزادہ
ملا ہیبت اللہ اخونزادہ 1961 میں قندھار کے ضلع پنجوائی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے مذہبی تعلیم پاکستان میں کوئٹہ سے ملحقہ علاقے کچلاک میں حاصل کی۔
سال 1979 میں روسی افواج کے افغانستان میں داخل ہونے کے بعد ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کا خاندان بھی پاکستان منتقل ہو کر کچلاک میں آباد ہوا تھا۔
ملا ہیبت اللہ کا شمار تحریک طالبان افغانستان کے بانی ملا عمر کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ وہ 1994 میں طالبان کے ادارے نہی عن المنکر کے سربراہ مقرر کیے گئے اور بعد ازاں ان کو شرعی عدالت کا سربراہ بنایا گیا۔
وہ 25 مئی 2016 کو امریکی ڈرون حملے میں ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد طالبان کے سپریم لیڈر بنے۔ جولائی 2017 میں ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کے بیٹے نے ہلمند میں ایک فوجی کیمپ پر خود کش حملہ کیا تھا۔
ملا ہیبت اللہ کے بھائی حافظ حمد اللہ 16 اگست 2019 کو مسجدِ خیر المدارس کچلاک میں نمازِ جمعہ کے وقت ہونے والے خودکش حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔ بظاہر اس حملے میں ہدف ملا ہیبت اللہ تھے۔
عبوری وزیرِ اعظم محمد حسن اخوند
طالبان کی عبوری حکومت میں محمد حسن اخوند کو وزیرِ اعظم مقرر کیا گیا ہے۔ ان کا نام امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کے حملے کے بعد اقوامِ متحدہ کی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہے۔
محمد حسن اخوند طالبان کی فیصلہ سازی کرنے والی رہبری شوریٰ کے سربراہ ہیں۔ وہ 1996 سے 2001 تک طالبان کے اقتدار کے دوران پہلے وزیرِ خارجہ اور پھر نائب وزیرِ اعظم بھی رہ چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق حسن اخوند کا تعلق قندھار سے ہے۔ اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کی رپورٹ میں انہیں ملا عمر کا 'قریبی ساتھی اور سیاسی مشیر' قرار دیا گیا ہے۔
طالبان ذرائع کہتے ہیں کہ ملا حسن اخوند تحریکِ طالبان میں بہت زیادہ عزت رکھتے ہیں خاص طور طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کی نظر میں ان کی بہت اہمیت ہے۔
لگ بھگ 60 برس یا اس سے زائد عمر کے محمد حسن اخوند کے بارے میں کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ وہ ایک مذہبی شخصیت سے زیادہ سیاسی شخصیت ہیں۔
پشاور پریس کلب کے صدر ایم ریاض کے بقول محمد حسن اخوند کا تعلق طالبان کے سخت گیر رہنماؤں میں سرِ فہرست ہے اور اسی بنیاد پر 90 کی دہائی کی طالبان حکومت میں وہ وزیرِ خارجہ کے عہدے سے ہٹا دیے گئے تھے۔
عبوری نائب وزیرِ اعظم ملا عبد الغنی برادر
عبدالغنی برادر ملا عمر کے قریبی دوستوں میں سے ایک ہیں۔ انہیں 'برادر' کا لقب بھی انہیں کی جانب سے دیا گیا تھا۔ وہ طالبان کی گزشتہ حکومت میں اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔
ملا عبد الغنی برادر کا تعلق ارزگان صوبے کے ضلع دہہہ رود سے ہے۔ ان کے خاندان کا شجرہ پشتونوں کے قبیلے درانی کی ذیلی شاخ پوپلزئی سے ہے۔
طالبان کی پہلی حکومت میں وہ نائب وزیرِ دفاع کے طور پر فرائض انجام دے چکے ہیں۔
البتہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملا عبد الغنی برادر نے اتحادی فورسز پر حملوں کے ذمہ دار کی حیثیت سے سینئر ملٹری کمانڈر کے طور پر فرائض انجام دیے۔
انہیں سن 2010 میں پاکستان میں گرفتار کیا گیا تھا۔ آٹھ سال کے بعد ان کو 2018 میں رہا کیا گیا تھا۔ رہائی کے بعد انہوں نے دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کی قیادت کی اور وہ امریکہ کے ساتھ امن معاہدے میں ایک اہم شخصیت رہے۔ جب کہ معاہدے پر دستخط بھی انہوں نے کیے تھے۔
عبوری نائب وزیرِ اعظم ملا عبد السلام حنفی
طالبان کی دوسری حکومت میں ملا عبد السلام حنفی کو بھی نائب وزیر اعظم کا عہدہ دیا گیا ہے۔
طالبان نے ان کو صوبہ قندوز کا گورنر مقرر کیا تھا۔ 2010 میں أفغانستان کی حکومت نے انہیں گرفتار بھی کیا تھا۔ بعد ازاں فروری 2020 میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے نتیجے میں انہیں رہائی ملی تھی۔
وہ ماضی کی طالبان حکومت میں اہم سیاسی اور فوجی عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔
انٹیلی جنس کے سربراہ ملا عبد الحق واثق
طالبان نے ملا عبد الحق واثق کو خفیہ ادارے کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ افغانستان کی سابقہ حکومت میں اس ادارے کو نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) کہا جاتا تھا۔
وہ 1996 سے 2001 تک خفیہ اطلاعات یا انٹیلی جنس کی وزارت میں نائب وزیر اور قائم قام وزیر بھی رہے تھے۔گزشتہ حکومت میں طالبان نے ان کو مختصر عرصے کے لیے صوبہ تخار کا گورنر بھی مقرر کیا تھا۔
طالبان کی گزشتہ حکومت کے خاتمے پر انہیں 11 جنوری 2002 کو حراست میں لیا گیا تھا۔ رپورٹس کے مطابق امریکہ کی فوج ان کو گرفتار کرنے بعد پہلے بگرام کے اڈے میں قائم جیل میں رکھا تھا۔
بعد ازاں ان کو گونتانامو بے کی جیل منتقل کیا گیا تھا۔ جہاں سے ان کو 31 مئی 2014 کو قیدیوں کے تبادلے کی صورت میں رہائی ملی تھی۔
عبوری وزیرِ خارجہ امیر خان متقی
طالبان کی عبوری حکومت میں قائم مقام وزیرِ خارجہ کا عہدہ حاصل کرنے والے امیر خان متقی اس سے قبل طالبان کی حکومت میں ثقافت اور اطلاعات کی وزارت سنبھال چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ تعلیم کے وزیر بھی رہے ہیں۔
خود کو ہلمند کا رہائشی کہنے والے امیر متقی قطر میں امریکہ کے ساتھ بات چیت کرنے والی مذاکراتی ٹیم اور امن کمیشن کے رکن بھی رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق طالبان ذرائع کہتے ہیں کہ وہ نہ عسکری کمانڈر ہیں اور نہ ہی مذہبی رہنما۔ البتہ وہ دعوت و رہنمائی کمیشن کی سربراہی کرتے ہیں۔
طالبان کے ملک پر کنٹرول حاصل کرنے کے دوران ہونے والی لڑائیوں میں امیر خان متقی نے جو بیانات دیے اور تقاریر کیں ان میں انہوں نے خود کو ایک معتدل رہنما کے طور پر پیش کیا۔
انہوں نے ہی طالبان پر زور دیا تھا کہ وہ صوبائی دارالحکومتوں تک پہنچنے کے بعد انتظار کریں اور شہروں کی گنجان آباد علاقوں میں لڑائی کے بجائے مذاکرات کے ذریعے ہی کنٹرول کے حصول کی کوشش کریں۔ مبصرین کے مطابق طالبان کو اس پالیسی سے کافی حد تک کامیابی بھی ملی۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل سمیت تمام صوبوں پر طالبان اگست کے وسط تک قابض ہو گئے تھے البتہ پنجیشر وہ واحد صوبہ تھا جہاں مزاحمت جاری تھی اور تین روز قبل طالبان اس پر بھی قابض ہو گئے ہیں البتہ اس قبضے سے قبل طالبان کو مسلح مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لڑائی کے آغاز سے پہلے امیر خان متقی نے یہاں بھی مذاکرات سے معاملہ حل کرنے کی کوشش کی تھی تاہم اس میں کامیابی نہیں مل سکی تھی۔
عبوری نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس ستنکزئی
شیر محمد عباس ستنکزئی طالبان کی قیادت میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ افراد میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کو عبوری کابینہ میں نائب وزیرِ خارجہ مقرر کیا گیا ہے۔
افغانستان میں ظاہر شاہ کی حکومت میں وہ فوج میں شامل ہوئے تھے۔ اسی دور میں انہوں نے بھارت کی ملٹری اکیڈمی میں تربیت بھی حاصل کی تھی۔
سوویت یونین کے افغانستان میں آمد پر انہوں نے فوجی عہدہ چھوڑ دیا تھا۔
سوویت یونین کے خلاف جنگ میں انہوں نے مولوی محمد نبی محمدی کی جماعت حرکتِ اسلامی افغانستان میں شمولیت اختیار کی۔ بعد ازاں پروفیسر رسول سیاف کے اتحادِ اسلامی میں شامل ھو کر مزاحمت میں حصہ لیا تھا۔
وہ طالبان کی 1996 سے 2001 کی حکومت میں نائب وزیرِ خارجہ تھے۔ انہوں نے امریکہ کا دورہ بھی کیا تھا۔
شیر محمد عباس ستنکزئی 2012 سے 2018 تک قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ رہے تھے۔ انہوں نے روس، چین، ایران سمیت کئی ممالک سے طالبان کے تعلقات استوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
عبوری وزیرِ تعلیم نور اللہ نوری
طالبان نے عبوری کابینہ میں نور اللہ نوری کو بحیثیت وزیرِ تعلیم شامل کیا ہے۔ وہ صوبہ بلخ کے گورنر رہ چکے ہیں۔
ان کو دسمبر 2001 میں شمالی اتحادی کے عسکری کمانڈر رشید دوستم کے جنگجوؤں نے گرفتار کر کے امریکہ کی فوج کے حوالے کیا تھا۔
نور اللہ نوری کو بھی گرفتار کرنے کے بعد پہلے بگرام میں قائم قید خانے میں رکھا گیا تھا۔ جب کہ بعد ازاں امریکہ کی فوج نے ان کو گونتانامو بے کی جیل منتقل کر دیا تھا۔ انہیں بھی 2014 میں قیدیوں کے تبادلے میں رہائی ملی تھی۔