عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہینم گیبراسس کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے کو یورپ اور شمالی امریکہ میں کرونا وائرس کیسز میں تیزی سے اضافے پر بہت تشویش ہے۔
پیر کو جنیوا میں پریفنگ کے دوران ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کے کیسز میں اضافے کے باعث طبی عملے پر کام کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے ایک شخص سے ملاقات کے بعد ڈبلیو ایچ او کے سربراہ دو ہفتے قرنطینہ میں رہنے کے بعد واپس آئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی ویکسینز کے بارے میں حالیہ خبریں حوصلہ افزا ہیں۔ پیر کو امریکی کمپنی موڈرنا نے اپنی کرونا وائرس کی ویکسین کے تجربات کے نتائج کا اعلان کیا۔ کمپنی کے مطابق تجربات میں ویکسین 94.5 فی صد کیسز میں مفید ثابت ہوئی۔
ڈبلیو ایچ او کی چیف سائنس دان سومیا سوامی ناتھن کا کہنا ہے کہ جون 2021 تک عالمی سطح پر ویکسین کی ترسیل کے لیے بہت کم خوارکیں دستیاب ہوں گی۔
موڈرنا کے ویکسین کے تجربات کے فیز 3 میں 30 ہزار رضاکاروں پر تجربات کیے گئے۔ کچھ رضاکاروں کو 'پلیسیبو' یعنی بے ضرر مواد دیا گیا جب کہ دیگر کو ویکسین کی خوراک دی گئی تھی۔
موڈرنا کے مطابق جن لوگوں کو 'پلیسیبو' دیا گیا ان میں سے 90 سے 95 رضاکاروں کو کرونا وائرس ہوا۔ ان کے علاوہ 11 رضاکاروں میں بیماری کی شدت ظاہر ہوئی۔
Your browser doesn’t support HTML5
کمپنی کا کہنا ہے کہ ویکسین کے فیز تھری ٹرائلز کے بعد اس بات کی بھی تصدیق ہوئی ہے کہ یہ ویکسین وبا سے بچاؤ کے علاوہ مریض کو شدید بیمار ہونے سے بھی بچاتی ہے۔
انہوں نے اس کامیابی پر ان ہزاروں رضاکاروں سمیت اس ویکسین پر انتھک محنت کرنے والے افراد کا شکریہ ادا کیا۔
امریکی ریاست میساچوسٹس میں قائم کمپبی نے یہ ویکسین امریکی حکومت کے 'نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشئیس ڈیزیز' کے ریسرچرز کی مدد سے بنائی ہے۔
امریکی کمپنی فائزر اور جرمن فرم 'بائیو این ٹیک' کے تعاون سے بنی ویکسین کے بعد موڈرنا کی ویکسین دوسری ایسی ویکسین ہے جس کے نتائج حالیہ دنوں میں سامنے آئے ہیں۔
اس پیش رفت پر غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے ٹوئٹ میں کہا کہ دوسری ویکسین کے حوصلہ افزا نتائج کی خبر ہمیں اُمید دیتی ہے جو بات پہلی ویکسین کی خبر کے بعد درست تھی وہی اب بھی درست ہے۔ ان ویکسینز کے دستیاب ہونے میں ابھی مہینے باقی ہیں۔ اور تب تک امریکیوں کو سماجی دوری اور ماسک پہننے کے عمل پر ابھی بھی عمل کرنا ہوگا تاکہ وائرس کو کنٹرول کیا جا سکے۔"
امریکی فارماسوٹیکل کمپنی 'جانسن اینڈ جانسن' نے بھی اپنی ویکسین کے تجربات کے تیسرے اور آخری فیز پر کام شروع کر دیا ہے۔
کمپنی کے مطابق ابتدا میں چھ ہزار رضاکار حصہ لیں گے اور ان کی تعداد بعدازاں بڑھا کر 30 ہزار کر دی جائے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ادھر برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ کچھ نوجوانوں میں کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے کے باوجود بیماری کی علامات ظاہر ہوتی رہیں جن کی وجہ سے ان کے بعض اعضا کو بھی نقصان پہنچا۔
اس تحقیق میں 2 سو سے زائد مریضوں کو دیکھا گیا جن میں سے 70 فی صد سے زائد افراد کے کرونا سے متاثر ہونے کے چار ماہ بعد بھی دل اور پھیپھڑوں سمیت ایک یا ایک سے زائد اعضا کو نقصان پہنچا تھا۔
اس تحقیق کے ذریعے لمبے عرصے تک کرونا وائرس کی علامات ظاہر ہونے پر روشنی ڈالی گئی۔ ایسے افراد کو لمبے عرصے تک تھکن، سانس لینے میں دقت، درد اور چکر آنے کی علامات ظاہر ہوتی رہیں جب کہ یہ لوگ کرونا وائرس سے کم خطرے کے افراد کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔
حالیہ دنوں میں امریکہ میں نیو جرسی، مشی گن اور واشنگٹن کی ریاستوں نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نئی پابندیوں عائد کی ہیں جن میں بند جگہوں میں زیادہ سے زیادہ دس افراد اور کھلی جگہوں میں 150 سے زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی بھی شامل ہے۔
امریکہ مین جانز ہاپکنز کرونا وائرس ریسورس سنٹر کے مطابق پیر تک دنیا بھر میں کرونا وائرس سے پانچ کروڑ 46 لاکھ افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ ادارے کے مطابق دنیا بھر میں وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 13 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔