خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے انسداد کیلئے اقوام متحدہ کی' کمیٹی آن دی ایلیمی نیشن آف ڈسکرمینیشن اگینسٹ وومن' یعنی" سی ڈا" نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں خواتین اور لڑکیاں مسلسل انسانی اسمگلنگ کا نشانہ بن رہی ہیں۔
کمیٹی کی رکن ڈالیا لی نارٹے کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر پھیلنے والی وبا نے یہ منکشف کیا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے حل کیلئے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
لی نارٹے پینل کی سفارشات مرتب کرنے کی قیادت کر رہی ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ اسمگلنگ کی روک تھام کے ساتھ اس کی حوصلہ شکنی بھی ضروری ہے۔
پینل کا کہنا ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے مقامی اور بین الاقوامی قوانین کی موجودگی اور تشکیل دی گئی پالسیوں کے باوجود، انسانی اسمگلنگ میں ملوث نیٹ ورکس کے پیچھے موجود قوتوں کو وسیع پیمانے پر سزاؤں سے استثنا حاصل ہے۔
سائبر سپیس کو انسانی اسمگلنگ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے
جنیوا میں قائم کمیٹی کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے پھیلنے والی عالمی وبا نے انسانی اسمگلنگ کا شکار ہونے والوں کے لیے معاملات میں مزید بگاڑ پیدا کیا ہے اور حالیہ برسوں میں متعدد ملک عالمی سطح پر سائبر سپیس میں انسانی اسمگلنگ میں اضافہ دیکھ رہے ہیں۔
کمیٹی کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا، ڈارک ویب اور میسجنگ کے ذریعے آن لائن طلب کی ممکنہ انسانی اہداف تک آسان رسائی ممکن ہوئی ہے، جب کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والے کی شناخت بھی خفیہ رہتی ہے۔
کمیٹی میں حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے آزاد ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ انسانی اسمگروں کی جانب سے آن لائن جنسی استحصال کے لیے کمزور افراد کی بھرتیوں میں اضافہ ہوا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ جنسی استحصال کی غرض سے بچوں کی اسمگلنگ میں سہولت پیدا کرنے والی ٹیکنالوجی اور مواد کی مانگ بھی بڑھی ہے
سماجی ذمہ داری کا شعور پیدا کرنے کی ضرورت
کمیٹی نے سوشل میڈیا اور میسجنگ کمپنیوں سے اپنی اپیل میں کہا ہے کہ وہ صورت حال پر کنٹرول کے لیے ایسے طریقے اختیار کریں جن سے خواتین اور لڑکیوں کی اسمگلنگ اور جنسی استحصال کے خطرے کو کم کیا جا سکے۔
کمیٹی نے آن لائن پلیٹ فارموں پر زور دیا ہے کہ اپنے بگ ڈیٹا، مصنوعی ذہانت اور تجزیاتی طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے ایسے رجحانات کا پتا چلائیں، جن سے اسمگلنگ اور اس میں ملوث گروپس کی شناخت معلوم ہو سکے جو یہ غیر قانونی کارروائیاں کرتے ہیں۔