پاکستانی نژاد امریکی سیاست دان ڈاکٹر آصف محمود حالیہ عرصے کے دوران سابق وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان کے حق میں امریکی سینیٹرز کی حمایت حاصل کرتے ہوئے دکھائی دیے ہیں۔
آصف محمود امریکہ کی انتخابی سیاست میں تو سرگرم رہے ہیں لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے وہ امریکہ میں پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کے حق میں بھی سرگرم ہیں۔اس ضمن میں وہ اپنے ٹوئٹر اکاوُنٹ کے ذریعے ویڈیوز شیئر کرتے رہے ہیں۔
ڈاکٹر آصف محمود عمران خان اور امریکی کانگریس کے چار ارکان کے درمیان ٹیلی فونک رابطوں کا ذریعہ بننے کے ساتھ اعلیٰ سطح کا ایک امریکی وفد پاکستان روانہ کرنے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔
بہت کم پاکستانی ڈاکٹر آصف محمود کی شخصیت کے بارے میں جانتے ہیں لیکن عمران خان کے لیے امریکہ میں جاری ان کی کوششوں کو دیکھتے ہوئے گمان ہوتا ہے کہ وہ امریکہ میں بیٹھ کر سابق وزیرِ اعظم کے لیے کوئی مہم چلا رہے ہیں۔لیکن وہ اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں ڈاکٹر آصف محمود نے کہا کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ان کے تعلقات ہیں لیکن وہ کسی ایک جماعت کی حمایت نہیں کرتے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں اور وہ فیصلہ منصفانہ اور ایمان داری سے ہو۔
ڈاکٹر آصف محمود جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق کی جانب امریکی قانون سازوں کی توجہ مبذول کراتے آئے ہیں۔ سال 2019 میں انہوں نے بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کے مسئلے پر امریکی ایوانِ نمائندگان میں اپنی نوعیت کی پہلی ہئیرنگ کروائی تھی۔ اس میں ان کی مدد کرنے والے ڈیموکریٹ رکن بریڈ شرمن سرِفہرست تھے۔
یہ وہی بریڈ شرمن ہیں جنہوں نے پاکستان میں انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں سے متعلق امریکی وزیرِ خارجہ اینٹی بلنکن کو ایک خط لکھا تھا۔ بعدازاں اس خط کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ اُن کے خط کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ عمران خان کی حمایت کرتے ہیں۔
ڈاکٹر آصف محمود کی کیلی فورنیا کے کانگریس مین بریڈ شرمن سے دوستی کافی پرانی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے ڈیموکریٹک پارٹی میں تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2022 کے وسط مدتی انتخابات میں امریکی نائب صدر کاملا ہیرس نے ان کی تائید کی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
دو ہزار بائیس کے امریکی وسط مدتی انتخابات میں ڈاکٹر آصف محمود نے ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے کیلی فورنیا کی چالیسویں ڈسٹرکٹ سے امریکی ایوانِ نمائندگان کا انتخاب لڑا تھا۔ اس ڈسٹرکٹ میں مسلمان ووٹرز کی تعداد صرف دو فی صد ہے لیکن انہیں اصل حمایت امریکی ووٹرز اور ڈونرز سے ملی تھی۔
ڈاکٹر آصف محمود نے اس تنازع پر اس وقت وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے جنوبی کیلی فورنیا میں رہ رہے ہیں جہاں کی مسلم کمیونٹی انہیں جانتی ہے۔
کانگریس کی نشست کے لیے2022 کے انتخاب میں وہ 32 ہزار 53 ووٹوں سے اپنی ری پبلکن مدِمقابل کم ینگ سے ہار گئے تھے۔لیکن انتخابی مہم کے دوران پاکستانی امریکی کمیونٹی نے ان کی بھرپور حمایت کی۔ اُن کی فنڈ ریزنگ میں پاکستانی امریکی کمیونٹی کا حصہ تیس فی صد تھا۔
اس سے قبل 2018 میں وہ کیلی فورنیا کے کمشنر آف انشورنس کی نشست کے لیے انتخاب میں کھڑے ہوئے لیکن انہیں صرف 13 فی صد ہی ووٹ پڑ سکے جب کہ 2017 میں انہوں نے کیلی فورنیا کے لیفٹننٹ گورنر کی پوزیشن کے لیے انتخاب لڑا اور اس میں بھی کامیاب نہ ہو سکے۔
ڈاکٹر آصف محمود کا تعلق پاکستان کے صوبۂ پنجاب کے چھوٹے سے شہر کھاریاں سے ہے۔ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔
انہوں نے میڈیسن کی تعلیم کراچی کے سندھ میڈیکل کالج سے حاصل کی تھی جس کے بعد میڈیکل ریذیڈینسی کے لیے وہ امریکہ کی ریاست کینٹکی آگئے۔
وہ خود کو کنٹکی کی کالج باسٹک بال ٹیم ’وائلڈ کیسٹس ‘ ڈائی ہارٹ فین بتاتے ہیں۔
گزشتہ چوبیس برس سے وہ جنوبی کیلی فورنیا میں پیھپھڑوں کے ماہر کے طور پر پریکٹس کرتے آئے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ شعبۂ طب سے سیاست میں آنے کا خیال انہیں اس لیے آیا کیوں کہ وہ مریضوں کے مسائل سے واقف تھے اور ایک تارکِ وطن ہونے کے ناتے لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔
ڈاکٹر آصف محمود جنوبی کیلی فورنیا کی مسلم کمیونٹی کا سرگرم حصہ ہیں اور انہیں اپنی کمیونٹی کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
ان کے بقول، "میں جنوبی ایشیا اور بالخصوص پاکستان اور بھارت میں انسانی حقوق، آزادیٔ صحافت اور اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھاتا رہوں گا۔"
ڈاکٹر آصف محمود کے مطابق چوں کہ ان کا تعلق پاکستان سے ہے اس لیے وہ پاکستان میں جمہوریت دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ پاکستان ترقی کرسکے، بجائے اس کے کہ ہر روز کی لڑائی رہے۔