لشکر جھنگوی کیا ہے؟

فائل

پاکستان میں اِسے لشکر جھنگوی کے نام سے جانا جاتا ہے؛ افغانستان میں اِسے طالبان کے ساتھ نتھی کیا جاتا ہے، جب کہ یہ القاعدہ کے دھڑوں سے جڑا ہوا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اب یہ داعش کے گروپ سے منسلک ہے

پیر کے روز کوئٹہ میں پولیس کے تربیتی مرکز پر ہونے والے بم حملے کے بعد ایک بار پھر سنی انتہاپسند تنظیم کا نام لیا جا رہا ہے، جس کے بارے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ دہشت گردی کے عالمی عزائم رکھتی ہے اور اُس کے داعش کے ساتھ تعلقات ہیں۔ ’وائس آف امریکہ‘ نے دسمبر میں لشکر جھنگوی پر مضمون شائع کیا تھا۔ پاکستانی ذائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ پیر کو ہونے والا حملہ اُسی کی کارستانی ہے۔ یہ مضمون چند تبدیلیوں کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔
مغرب میں بمشکل ہی کوئی اِسے جانتا ہوگا۔ ’لشکر جھنگوی‘گروپ زیادہ تر پنجاب میں قائم ہے، جس نے کئی برسوں سے پاکستان میں محشر برپا کر رکھا ہے۔ افغانستان میں اِسے طالبان کے ساتھ نتھی کیا جاتا ہے، جب کہ یہ القاعدہ کے دھڑوں سے جڑا ہوا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اب یہ داعش کے گروپ سے منسلک ہے۔
پاکستان میں اِسے لشکر جھنگوی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ گروپ اُس وقت نظروں میں آیا جب سنہ 1996 میں پاکستان میں فرقہ واریت کی بنیاد پر تشدد کی کارروائیاں ہوئیں۔ یہ گروپ پاکستان میں سنی مسلک کی بادشاہت قائم کرنے کا خواہاں ہے، اور دہشت گرد حملوں میں سینکڑوں شیعہ مسلک کے ماننے والوں کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کرچکا ہے۔
لشکر جھنگوی نے 13 دسمبر کو کوئٹہ کی ایک مارکیٹ پر بم حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دھماکہ شیعاؤں کو سزا دینے کے لیے کیا گیا، جو شام کے تنازعے میں ایران اور شامی صدر بشار الاسد کی طرف داری کرتے ہیں۔
خادم حسین، ایک پاکستانی سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’گروپ خطے کی سطح پر فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعے فرقہ وارانہ تقسیم پیدا کرنا چاہتا ہے، جس سے عالمی جنگ چھڑ سکے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’پاکستان اور افغانستان میں اقلیتی شیعہ گروہوں کو نشانہ بنا کر، یہ گروپ سنی سعودی عرب اور اُس کے اتحادیوں اور شیعہ مسلک کے ایران کے درمیان تقسیم میں اضافہ کرنا چاہتا ہے، جس تقسیم نے پہلے ہی مشرق وسطیٰ پر ضرب لگائی ہے‘‘۔
کئی ایک دہشت گرد حملے
حالانکہ پاکستان حکومت نے سنہ 2001 میں لشکر جھنگوی کو کالعدم قرار دیا تھا، یہ متعدد بڑے دہشت گرد حملوں میں ملوث رہا ہے، جن میں پاکستان میں بس اور گرجا گھر پر ہونے والے حملے شامل ہیں، جِن میں شیعہ اقلیت کے سینکڑوں ارکان ہلاک ہوئے۔
یہ گروپ پارلیمان میں موجود سیاسی دھڑوں اور سیاستدانوں کی مدد سے مقامی سیاست پر اثرانداز ہوتا ہے۔ انگریزی روزنامہ، ’دی نیشن‘ نے گذشتہ ماہ خبر شائع کی تھی کہ کالعدم دھڑوں کے حمایت یافتہ 500 سے زیادہ امیدوار پنجاب کے مقامی حکومتی نظام میں کامیاب ہوچکے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ لشکر جھنگوی ملک کے عدالتی نظام کو خوف زدہ کرتی ہے اور حکومت اور پولیس کے اہل کاروں کے خلاف بدلہ لینے کی کارروائیاں کرتی ہے۔ سنہ 1999 میں اُس نے پاکستان کے وزیر اعظم کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔
انٹیلی جنس ذرائع نے سنہ 2002 میں امریکی صحافی ڈینئل پرل کے اغوا اور قتل میں ملوث گروہ کی شناخت لشکر جھنگوی کے طور پر کی تھی۔ اِسی گروپ نے سنہ 1997میں کراچی شہر میں تیل کے چار امریکی کارکنان کی ہلاکت کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔
لشکر جھنگوی کا بھرتی کے مراکز، تربیتی کیمپوں اور وسائل پر مبنی ایک بڑا جال بچھا ہوا ہے، اُن کی یہ کوشش رہی ہے کہ دھڑوں اور متعدد دیگر شدت پسند گروپوں کی مدد حاصل کی جائے، جو پاکستان سے دور کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
اِسی نے سنہ 2011 میں کابل میں کیے گئے دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی، جس میں محرم کے دوران ماتمی جلوس میں شریک کم از کم 55 شیعہ زائرین ہلاک ہوئے تھے۔ یہ گروپ طالبان سے مل کر لڑ چکا ہے جب ستمبر کے اواخر میں افغانستان کےشمالی شہر، قندوز کو مختصر دورانیے تک قبضہ کیا تھا۔
داعش سے مراسم
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ سنہ 2000 کی دہائی میں، لشکر جھنگوی کے القاعدہ سے تعلقات پیدا ہوئے۔
امریکی حکام نے سنہ 2003 میں لشکر جھنگوی کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ لشکر جھنگوی افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کے دھڑوں کے ساتھ تربیت لے چکا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار، حسین نے بتایا کہ ’’کئی دیگر عوامل کے علاوہ، یہ شیعہ مخالف نظریہ تھا جس کے نتیجے میں لشکر جھنگوی طالبان اور القاعدہ کے قریب آیا‘‘۔
اب، تجزیہ کار اس بات کے قائل ہیں کہ شیعہ مخالف نظریے پر مبنی اتحاد کے معاملے پر یہ گروپ داعش سے ملا ہوا ہے۔

پاکستان کے سرکردہ انگریزی اخبار، ’دی ایکسپریس ٹربیون‘ نے گذشتہ ماہ خبر دی تھی کہ لشکر جھنگوی کا ایک سابق رہنما داعش میں شمولیت کی کوشش کر رہا تھا، جنھیں اس سال کے اوائل میں پنجاب میں پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا۔ اس پاکستانی اخبار کے مطابق، وہ پاکستان میں داعش کے گروپ کا سربراہ بننا چاہتا تھا۔
ایک پاکستانی سکیورٹی اہل کار نے ’دی ایکسپریس ٹربیون‘ کو بتایا کہ ’’جھنڈوں اور پمفلیٹس کی نوعیت کا کچھ مواد، جس سے داعش کے ساتھ وفاداری ثابت ہوتی ہے، اُن سے (لشکر جھنگوی کے حامیوں سے) برآمد کیا گیا‘‘۔
حالیہ دِنوں کے دوران، اس بات کی علامات سامنے آچکی ہیں کہ داعش پاکستان میں پھل پھول رہا ہے۔ اور تجزیہ کار کہتے ہیں کہ لشکر جھنگوی کی انتہاپسند سوچ داعش کے نظریات سے میل کھاتی ہے۔
حسین کے بقول، ’’لشکر جھنگوی کے علاوہ، پاکستان کا کوئی دوسرا گروپ داعش کے شیعہ مخالف نظریات کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘‘۔