عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ انسداد ملیریا کے لیے کی گئی کوششوں کے قابل ذکر نتائج برآمد ہوئے ہیں کہ اس ضمن میں مزید اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔
ادارے نے ملیریا سے بچاؤ، تشخیص اور علاج سے متعلق عالمی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے گلوبل ملیریا پروگرام کے عہدیدار رچرڈ سبلسکی کا کہنا ہے کہ 2000ء سے 2013ء کے دوران ملیریا کے کیسز میں 30 فیصد جب کہ اس سے ہونے والی اموات کی شرح میں 40 فیصد تک کمی دیکھی گئی ہے۔
لیکن عالمی ادارے کے مطابق 2013ء میں دنیا بھر میں ملیریا کے اندازاً 20 کروڑ کیسز اور پانچ لاکھ اموات رپورٹ ہوئیں۔ ان میں نوے فیصد اموات افریقہ میں ہوئی اور متاثرین میں زیادہ تعداد پانچ سال سے کم عمر بچوں کی تھی۔
بچوں کی اموات میں اس قدر زیادہ تعداد کی وجہ ماہرین کے بقول یہ ہے کہ لاکھوں حاملہ خواتین موثر احتیاطی ادویات استعمال نہیں کرتیں۔
ڈبلیو ایچ او کےمطابق حمل کے دوران ملیریا کے جراثیم سے متاثرہ ہونے سے سالانہ تقریباً دس ہزار خواتین اور 75 ہزار سے دو لاکھ کے درمیان نومولود اس قابل علاج مرض کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے ملیریا پروگرام کے میڈیکل افسر پیٹر اولومیز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بہت سے بچوں کو دوا کی صحیح مقدار بھی نہیں دی جاتی۔
"اکثر اوقات دوا ساز کمپنیاں جب دوا تیار کرتی ہیں تو ان اس سے پہلے کی جانے والی زیادہ تر تحقیق بالغ آبادی سے متعلق کی جاتی ہے۔ دوا کی خوراک اسی تناسب سے متعین کی جاتی ہے اور بعد ازاں بچوں کے لیے اندازے سے خوراک طے کی جاتی ہے۔ ایک لحاظ سے بچوں کو چھوٹا بالغ سمجھ کر خوراک تجویز کر دی جاتی ہے جو ضروری نہیں کہ اس طرح کارگر بھی ثابت ہو۔"
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ملیریا سے نمنٹے کے طریقے مہنگے نہیں لیکن بہت سے موثر ہیں جب کہ احتیاطی تدابیر سے ہر سال ہزاروں جانیں بھی بچائی جا سکتی ہیں۔ لیکن اس بارے میں کوششیں قابل ذکر حد تک بڑے پیمانے پر کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے 2030ء تک اس بیماری کے کیسز میں 90 فیصد کمی کا ہدف مقرر کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے اس ادارے کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے لگائے گئے تخمینوں کے مطابق یہ لاگت ہر سال پانچ ارب ڈالر سے بڑھ کر نو ارب ڈالر ہو گی جس کی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی بتائی گئی ہے۔