پیر کے روز دنیا بھر میں تمباکو نوشی سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ عالمی ادارہٴصحت نے خواتین اور لڑکیوں میں تمباکو کے استعمال سے ہونے والی بیماریوں کی روک تھام کے لیے عالمی سطح پر اقدامات کرنے پہ زور دیاہے۔ WHO نے تمباکو سے متعلق ان تمام اشتہارت پہ پابندی عائد کرنے کے لیے کہا ہے جو ترقی یافتہ ممالک میں خواتین اور بچیوں کے لیے دلکش بنا کر پیش کیے جاتے ہیں۔
عالمی ادارہٴصحت نے تمباکو کی صنعت پہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ خواتین اور بچیوں کو سگریٹ نوشی کی جانب راغب کرنے کے لیے گمراہ کن اشتہارات بناتے ہیں۔ WHO نے کہا ہے کہ ان اشتہارات میں جارحانہ انداز میں خواتین کو متوجہ کیا جاتا ہے تاکہ جو لوگ تمباکو نوشی سے ہلاک ہونے کے قریب ہیں یا جو اسے ترک رہے ہیں ان کی جگہ نئے گاہک تلاش کیے جا ئیں۔
151 ممالک میں نوجوانوں کی سگریٹ نوشی پہ کیے گئے ایک جائزے سے پتا چلا ہے کہ لڑکوں کی طرح لڑکیاں بھی تقریباً اتنی ہی تعداد میں تمباکو نوشی کرتی ہیں۔ جب کہ بلغاریہ، میکسیکو، نیوزی لینڈ اور نائجیریا میں لڑکوں کی نسبت لڑکیاں زیادہ سگریٹ نوشی کر تی ہیں۔
WHO میں تمباکونوشی کے خاتمے کے لیے اقدامات سے متعلق ڈائریکٹر ڈگلس بَیچر نے اس گمبھیر صورتِ حال کو تشویش ناک قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ خواتین میں تمباکو نوشی کی وبا اب پھیلنے ہی کو ہے۔ جو اہم نتائج ہمیں تحقیق کے ذریعے معلوم ہوئے ہیں وہ بہت پریشان کن ہیں۔ تجربہ بتاتا ہے کہ جو نوجوان سگریٹ نوشی کرتے ہیں وہ بڑے ہو کر بھی اس قبیح عادت کا شکار رہتے ہیں۔
عالمی ادارہٴصحت نے کہا ہے کہ تمباکو نوشی سے منسلک بیماریوں، جیسے دل کا دورہ، فالج اور کینسر سے سالانہ 50 لاکھ افراد ہلاک ہوتے ہیں جن میں پندرہ لاکھ خواتین ہیں۔ اس کے علاوہ دوسروں کی تمباکو نوشی کے دھوئیں سے متاثر ہو کر چار لاکھ تیس ہزار افراد ہلاک ہو جاتے ہیں، جن میں اکثریت خواتین کی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر بَیچر کہتے ہیں کہ تمباکو کی صنعت ایسے اشتہارات پر بھاری رقم خرچ کرتی ہے جو سگریٹ نوشی کرنے والی خواتین کو خوبصورت اور آزاد خیال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی بے وقوف نہیں بننا چاہیئے۔ اور ہماری اس برس کی مہم کا بھی کہنا ہے کہ تمباکو نوشی کوئی سٹائل نہیں ہے، نہ یہ خود مختاری کی کوئی اچھی مثال ہے۔ یہ بہت ہی بدشکل چیز ہے۔ یہ ہلاکت خیز اور عادی بنانے والی شے ہے۔ اس سال کا موضوع خواتین کے رسالے، فیشن انڈسٹری اور دیگر ایسے ذرائع کے خلاف جوابی حملہ کرنا ہے، جو خواتین کو تمباکو نوشی کے مہلک جال میں پھنساتے ہیں۔ٹر بَیچر کا کہنا ہے کہ تمباکو کی صنعت خواتین کو متاثر کرنے کے لیے لاتعداد حربے استعمال کرتی ہے۔ مثال کے طور پر جاپان میں گلابی رنگ کی خوبصورت ڈبیاں، سگریٹ رکھنےکے لیے بنائی جاتی ہیں، جو خواتین کو دیدہ زیب معلوم ہوتی ہیں۔ اور مصر میں پرفیوم کی بوتلوں سے ملتے جلتے سگریٹ پیک تیار کیے جاتے ہیں۔
عالمی ادارہٴصحت نے تمباکو کی صنعت پہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ خواتین اور بچیوں کو سگریٹ نوشی کی جانب راغب کرنے کے لیے گمراہ کن اشتہارات بناتے ہیں۔ ان اشتہارات میں جارحانہ انداز میں خواتین کو متوجہ کیا جاتا ہے. کئی ممالک میں سگرٹوں کو دیدہ زیب پیکٹوں میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ بچیاں اور خواتین راغب ہوں.