|
کراچی -- پاکستان میں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری پر حکومتی حلقے اسے بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ تاہم بعض وکلا اور قانونی ماہرین اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
بعض قانونی ماہرین ترمیم کو متنازع قرار دے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ حکومت نے آئینی ترمیم کر کے آزاد عدلیہ کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی ہے اور اس ترمیم سے حکومت کے خلاف فیصلے کرنے سے کوئی بھی جج گھبرائے گا۔
لیکن دوسری جانب بعض کا خیال ہے کہ اس ترمیم سے پارلیمان کا اصل مقام بحال ہوا ہے اور اس سے عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان محاذ آرائی کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔
لیکن ایسے میں سوال یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ ان عدالتی اصلاحات سے عام شہریوں کو کیا فائدہ ملے گا اور کیا ملک میں انصاف کا نظام تیز کام کر سکے گا۔
کالم نگار اور سپریم کورٹ کے وکیل شہاب اوستو کا کہنا ہے کہ ترمیم کا بنیادی مقصد اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو کنٹرول کرنا ہے اور اس سے یقینی طور پر عدلیہ کی آزادی متاثر ہو گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس ترمیم نے دونوں اداروں یعنی پارلیمان اور عدلیہ کے درمیان طاقت کے توازن کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
شہاب اوستو کے مطابق ترمیم کا واحد مقصد عدلیہ کو حکومت کے خلاف فیصلوں سے روکنا ہے۔ اب حکومت یعنی سیاست دان یہ فیصلہ کریں گے کہ ملک کا چیف جسٹس کون ہو گا اور اعلیٰ عدلیہ میں ججز کون ہوں گے اور کون نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کو سب سے زیادہ مزاحمت ججز کی جانب سے مل رہی تھی اور اب اس مزاحمت کا راستہ روک دیا گیا ہے۔
شہاب اوستو کا کہنا تھا کہ اب ججز پرفارمنس کی اسکروٹنی کے لیے بیورو کریٹس کی طرح سیاست دانوں اور حکومت کے خلاف فیصلے سے اجتناب کریں گے۔ اس سے خوشامدی کلچر پروان چڑھے گا اور کمزور ججز انصاف کے بجائے اپنی نوکری پکی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
'عدلیہ اور پارلیمان کے درمیان طاقت کا توازن بگڑ گیا'
آئینی اور قانونی امور کے ایک اور ماہر اور مبصر عبدالمعیز جعفری کا کہنا ہے کہ اس ترمیم سے عدلیہ اور پارلیمان کے درمیان طاقت کا توازن برقرار نہیں رہ پائے گا۔
اُن کے بقول پارلیمان کی جانب سے اس توازن کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حکومت کو اپنے مینڈیٹ کے 'جعلی' یا کمزور ہونے کے ڈر کے باعث یہ ترمیم کرنی پڑی۔
شہاب اوستو کا کہنا تھا کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بطور ادارہ عدلیہ نے آمروں کے کئی غلط کاموں کو قانونی قرار دیا.
لیکن ان کے خیال میں عدلیہ نے وہ فیصلے بھی اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر ہی کیے تھے اور ان کے بقول اب جو ترامیم لائی گئیں وہ بھی انہی (اسٹیبلشمنٹ) کے کہنے پر لائی گئی ہیں۔
پاکستان کا حکمراں اتحاد ترمیم کی منظوری کے لیے کسی دباؤ کے الزامات کو مسترد کرتا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے رہنما متعدد مواقع پر یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ ترمیم میثاقِ جمہوریت پر عمل درآمد کی ایک کڑی ہے اور اس میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔
'ججز کی تعیناتی میں پارلیمان کے کردار میں قباحت نہیں'
ایڈووکیٹ عبدالمعیز جعفری کا کہنا تھا کہ اس ترمیم میں ججز کی تعیناتی میں جو طریقہ کار وضع کیا گیا ہے وہ تمام بین الاقوامی اصولوں کے عین مطابق دکھائی دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے قبل پاکستان میں ججوں کی تعیناتی کا طریقہ کار جو 19 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے لایا گیا تھا، وہ ٹھیک نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ آئین میں کی جانے والی اٹھارہویں ترمیم میں ججوں کی تعیناتی کا جو طریقہ کار وضع کیا گیا تھا، اسے یہاں واپس لانے کی کوشش کی گئی اور اس میں کوئی قباحت نہیں۔
اُن کے بقول جوڈیشل کمیشن جس میں اب سیاست دان بھی ہوں گے، جب وہ جج کی کارکردگی کا تعین کریں گے تو یہاں سے عدلیہ کی آزادی پر وار ہوتا ہے۔
اسی طرح چیف جسٹس کے تعین کے وقت پھر سے سیاست دانوں کی مرضی شامل کرنا بھی عدلیہ کی آزادی کے بنیادی تصور کے بھی خلاف ہے۔
اُن کے بقول مسئلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب ایک حاضر سروس جج کے کردار پر سوال اٹھانے کا اختیار پارلیمنٹیرین کو مل جاتا ہے اور یہ شرط رکھ دی جائے کہ اس کے کردار پر اٹھائے جانے والے سوالات پر تسلی پر ہی وہ آگے بڑھ پائے گا یا وہ چیف جسٹس بن پائے گا۔
کیا یہ ترمیم واقعی میثاقِ جمہوریت کو نافذ کرنے کے لیے کی گئی؟
شہاب اوستو کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ میثاقِ جمہوریت ملک میں فوجی مداخلت روکنے اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھی جب کہ یہ ترمیم ان کے بقول اسٹیبلشمنٹ کے کہنے اور اس کی آشیرباد حاصل کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔ ان کے خیال میں میثاقِ جمہوریت کا نام استعمال کر کے لوگوں کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔
عبدالمعیز جعفری کے بقول ان ترامیم سے عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کے بیک لاگ کو ختم کرنے سے کوئی دور دور تک تعلق نہیں ہے۔
ان کے خیال میں اس ترمیم کے بعد عدالتوں پر بوجھ اور بڑھ ضرور سکتا ہے مگر کم نہیں ہو سکتا۔ اگر عدالتوں میں مقدمات کا انبار کم کرنا ہے تو حکومت کو کئی برسوں سے معلوم ہے کہ اس کے لیے کس قسم کی اصلاحات درکار ہوں گی۔
'قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے'
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر یاسین آزاد ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ اس آئینی ترمیم میں کچھ بھی غلط ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ قانون سازی عدلیہ کا نہیں بلکہ پارلیمان کا اختیار ہے اور پارلیمان یہ اختیار استعمال کرتے ہوئے آئین میں ترمیم لائی ہے۔
دوسرا یہ کہ ہماری عدلیہ کی تاریخ ایسے غلط کاموں سے بھری پڑی ہے جس میں اس نے آئین اور جمہوریت کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے آمروں کے مفادات کی نگرانی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس اور دیگر ججوں کی تعیناتی میں پارلیمنٹ کا کردار ہونا چاہیے اور ان کے بقول اس سے عدلیہ کی آزادی پر کوئی حرف نہیں آتا۔
'عدلیہ کی سیاسی امور میں مداخلت مسائل کی وجہ بنی'
سابق جج جسٹس ریٹائرڈ شائق عثمانی کا خیال اس سے مختلف ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس ترمیم سے عدلیہ کی آزادی سلب نہیں ہو گی۔
جسٹس عثمانی کے خیال میں جب سے چیف جسٹس کی تعیناتی سنیارٹی کی بنیاد پر ہونے لگی تھی، اس کے بعد سے ان کی اہمیت بہت بڑھ چکی تھی۔
اُن کے بقول چیف جسٹس بھی وزیرِ اعظم، آرمی چیف کی طرح ملک میں ایک قسم کے اسٹیک ہولڈر بن چکے تھے۔
چیف جسٹس کے پاس آئینی شقوں کی تشریح کرنے کی طاقت تھی تو پھر انہوں نے اپنے اپنے طریقوں سے تشریح کی۔ دوسری جانب ملک کی اعلیٰ عدلیہ میں سیاسی کیسز کی بھر مار نے بھی چیف جسٹس کی اہمیت میں اضافہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ امریکی سینیٹ سے منظوری کے بعد ہی سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی کا عمل مکمل ہوتا ہے۔ اس عمل میں پارلیمان کی شمولیت بہت ضروری ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارا سیاسی ماحول اس طرح کا ہے کہ اداروں کے درمیان ایک تصادم کی فضا رہتی ہے۔
لیکن ججز کی تعیناتی میں پارلیمان کی شمولیت اس ترمیم کی اچھی چیز ہے۔ اگر اس پر بہتر طریقے سے عمل کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں بطور قوم اس سے کافی فوائد مل سکتے ہیں۔