پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں عام انتخابات کے بعد سیاسی جوڑ توڑ جاری ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ صوبے میں کون حکومت بنائے گا۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں وہی حکومت بنائے گا جسے 'اسٹیبلشمنٹ' کی آشیرباد حاصل ہو گی۔
انتخابات کے بعد بلوچستان میں مختلف جماعتیں احتجاج بھی کر رہی ہیں جس کی وجہ سے صوبے میں ذرائع آمدورفت اور کاروبارِ زندگی متاثر ہو رہے ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ نگار سلیم شاہد کہتے ہیں کہ بلوچستان میں حکومت سازی کا انحصار وفاق میں بننے والی حکومت پر ہوتا ہے ور اس بار بھی ایسا ہی ہو گا۔
بعض ماہرین کے مطابق نگراں وزارتِ داخلہ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے سرفراز بگٹی وزارتِ اعلٰی کے مضبوط اُمیدوار ہیں۔ سرفراز بگٹی بلوچستان اسمبلی کی نشست پی بی 10 سے منتخب ہوئے ہیں۔
پیپلزپارٹی کی مقامی قیادت بھی یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ صوبے میں اس مرتبہ 'جیالا' وزیرِ اعلٰی ہو گا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 11، 11 اُمیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے 10، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) چار نشستیں حاصل کر کے نمایاں ہیں۔ اسی طرح چھ آزاد اُمیدوار بھی کامیاب ہوئے ہیں۔
وزارتِ اعلٰی کی دوڑ میں کون کون شامل ہے؟
بلوچستان کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار خلیل احمد کہتے ہیں کہ بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور بلوچستان عوامی پارٹی مل کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ چھ آزاد ارکان جس جماعت میں شامل ہوں گے۔ حکومت اسی جماعت کی بنے گی۔
ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہے کہ ان آزاد ارکان میں سے چار یا پانچ امیدوار پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔
خلیل احمد کہتے ہیں کہ اگر وفاق میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی بات بن جاتی ہے تو صوبے میں وزارتِ اعلیٰ کے لیے مسلم لیگ (ن) پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت کرے گی۔
ان کے بقول "پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما صادق عمرانی، نواب ثناء اللہ زہری اور سابق نگراں وفاقی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی اور ظہور بلیدی وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں شامل ہیں۔"
اس کے علاوہ دو سابق وزرائے اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی اور جام کمال خان بھی بلوچستان میں وزارتِ اعلیٰ کا منصب حاصل کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
خلیل احمد کے مطابق جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے اپوزیشن پینچوں پر بیٹھنے کے حالیہ فیصلے کے بعد نواب اسلم رئیسانی کے وزیر اعلیٰ بلوچستان بننے کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔
خلیل احمد کے بقول "میر صادق عمرانی نے پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے کہا ہے کہ ان کا شمار پی پی پی کے پرانے جیالوں میں ہوتا ہے اور وہ 30 برس سے جماعت کے ساتھ منسلک ہیں۔"
قوم پرست جماعتوں کا احتجاج
انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف بلوچستان میں چار جماعتی اتحاد نے احتجاجی تحریک چلا رکھی ہے۔
چند روز قبل کوئٹہ پریس کلب میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے قائد محمود خان اچکزئی نے ایک پر ہجوم پریس کانفرنس میں ہفتے کو 12 بجے تک الیکشن کمیشن کو نتائج درست کرنے کے لیے الٹی میٹم دے رکھا ہے۔
محمود خان اچکزئی نے الزام عائد کیا ہے کہ "امیدواروں سے کروڑوں روپے لیے گئے ہیں۔ پارلیمنٹ میں نہیں جائیں گے۔"
نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل) جمعیت علمائے اسلام (ف)، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار، پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے امیدوار اور کارکن سراپا احتجاج ہیں۔
بی این پی مینگل کی سابق رکن صوبائی شکیلہ نوید دہوار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شروع میں جو انتخابی نتائج سامنے آئے ان کے مطابق ہمارے امیدوار بہتر پوزیشن میں تھے مگر فارم 45 اور 47 چھین لیا گیا۔
کوئٹہ گرینڈ الائنس کے صوبائی اسمبلی کے امیدوار طاہر محمود نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ نتائج کسی مذاق سے کم نہیں ہیں۔ اس کی ذمے داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی۔
سابق صوبائی وزیر کھیل اور ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے قائد عبدالخالق ہزارہ نے احتجاجی دھرنے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم الیکشن کو باعثِ رحمت سمجھتے ہیں مگر یہ تو باعثِ زحمت بن چکا ہے۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے دھاندلی کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ملک میں آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات پرامن ماحول میں ہوئے۔
نگراں وزیرِ اطلاعات بلوچستان جان اچکزئی کہتے ہیں کہ حکومت سازی کا عمل الیکشن کے بعد افہام و تفہیم سے حل ہو گا۔ مینڈیٹ تسلیم کرنا ہی جمہوریت کی کامیابی اور عوام کی فتح ہے۔