مسلم لیگ نواز کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اتوار کی صبح لاہور پہنچ گئے ہیں۔ لاہور ائر پورٹ پر مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے شہباز شریف کا استقبال کیا۔
شہباز شریف اپریل میں علاج کی غرض سے لندن گئے تھے تاہم ان کی روانگی کے بعد پاکستان میں یہ چہ موگوئیاں شروع ہو گئیں تھیں کہ شاید اب وہ وطن واپس نہیں آئیں گے۔
شہباز شریف کی وطن واپسی ایسے وقت پر ہوئی ہے جب حزب اختلاف کی جماعتیں حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کے لیے پر تول رہی ہیں۔
ماہ رمضان میں بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے دیے گئے افطار ڈنر کے دوران مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز اور حمزہ شہباز سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین نے حکومت کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانے پر اتفاق کیا تھا۔
'متحدہ اپوزیشن متحد نظر آئے گی'
مسلم لیگ ن کے رہنماوؑں کا کہنا ہے شہباز شریف کی وطن واپسی سے حکومت پریشان ہے۔ شہباز شریف نہ صرف قومی اسمبلی میں بھرپور کردار ادا کریں گے، بلکہ قومی احتساب بیورو(نیب) کی جانبدرانہ کارروائیوں پر بھی آواز بلند کریں گے۔
مسلم لیگ ن کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل عطا تارڑ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شہباز شریف پارلیمینٹ کے اندر اور باہر موجود اپوزیشن جماعتوں کے رہنماوؑں سے مشاورت کریں گے۔
عطا تارڑ کے بقول شہباز شریف اپوزیشن کو حکومت کے خلاف ایک نکتے پر متفق کرنے کی کوشش کریں گے، تاکہ متحدہ اپوزیشن واقعی متحد نظر آئے۔
شہباز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف قائم نیب کیسز پر عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نیب کی جانبدرانہ کارروائیوں پر چیئرمین نیب کو بھی آڑے ہاتھوں لیں گے۔
'شہباز شریف درمیانی راستہ اختیار کریں گے'
شہباز شریف کی غیر موجودگی میں مریم نواز نے بلاول بھٹو زرداری کے افطار ڈنر میں مسلم لیگ ن کے وفد کی قیادت کی تھی۔ جس کے بعد پارٹی حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ نواز شریف کے بعد مسلم لیگ ن کی کمان مریم نواز کے پاس آ گئی ہے۔
سینئر تجزیہ کار نصر اللہ ملک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ شہباز شریف الجھن کا شکار ہیں ان پر نیب نے مقدمات قائم کر رکھے ہیں جس کا انھیں سامنا کرنا ہو گا جبکہ نواز شریف کے جارحانہ بیانیے کو آگے بڑھانا بھی شہباز شریف کے لیے مشکل ہو گا۔
ان کے بقول مریم نواز اب عملی سیاست میں دوبارہ سرگرم ہو چکی ہیں، انھوں نے یوم تکبیر کی تقریب سے بھی خطاب کیا۔ جس کے بعد یہ واضح ہو چکا ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت اب مریم نواز کر رہی ہیں۔
نصرا للہ ملک کہتے ہیں کہ شہباز شریف موجودہ صورتحال میں مقتدر قوتوں کو ناراض نہیں کرنا چاہیں گے تاہم وہ ایک حد تک نواز شریف کے سیاسی بیانیے کو اپنائیں گے تاکہ مسلم لیگ ن کا کارکن بھی ان کے ساتھ جڑا رہے۔
'اپوزیشن کے پاس کوئی بیانیہ نہیں'
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ شہباز شریف کی وطن واپسی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ان کے بقول ابھی مسلم لیگ ن کو یہ طے کرنا ہے کہ پارٹی کی قیادت مریم نواز اور شہباز شریف میں سے کون کرے گا۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ حکومت کو اپوزیشن جماعتوں سے کوئی خطرہ نہیں کرپشن بچاوؑ مہم کو عوام میں کبھی پذیرائی نہیں ملتی۔ لہذا دونوں جماعتوں کے پاس کوئی سیاسی بیانیہ نہیں ہے۔
فواد چوہدری کے مطابق پاکستانی عوام باشعور ہیں انھیں معلوم ہے کہ وزیر اعظم عمران خان انھیں اپوزیشن جماعتوں کے پیدا کردہ مسائل کو حل کرنے میں مصروف ہیں۔
خیال رہے کہ شہباز شریف کے خلاف نیب نے مختلف کرپشن مقدمات قائم کر رکھے ہیں اس ضمن میں نیب نے انھیں گرفتار بھی کیا تھا جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد وہ رہا ہوئے تھے۔
شہباز شریف نے لندن سے پارٹی کی تنظیم نو کا اعلامیہ جاری کیا تھا وہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاوؑنٹس کمیٹی کی سربراہی سے بھی دستبردار ہو گئے تھے جبکہ انھوں نے قومی اسمبلی میں خواجہ آصف کو پارلیمانی لیڈر مقرر کر دیا تھا۔
شہباز شریف کے اس فیصلے کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ بحث چھڑ گئی تھی کہ اب شریف برادران کچھ عرصے کے لیے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر رہے ہیں، تاہم شہباز شریف اتوار کی صبح وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔