بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سردار اختر مینگل کی جانب سے نگراں وزیرِ اعظم کی تقرری کے معاملے پر نواز شریف کو لکھا گیا خط موضوعِ بحث ہے۔ بعض تجزیہ کار کہتے ہیں اختر مینگل انوار الحق کاکڑ کی تعیناتی پر ناخوش ہیں جب کہ بعض کے مطابق اس اعتراض کا تعلق بلوچ سیاست سے ہے۔
اختر مینگل کا نواز شریف کے نام لکھا گیا خط سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں وہ میاں نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اُن کے ساتھ روا رکھے جانے والے مبینہ سلوک کی یاددہانی کے علاوہ اُن کے بقول اہم فیصلے 'کہیں اور' سے ہونے پر گلہ کر رہے ہیں۔
اختر مینگل کا اپنے خط میں کہنا ہے کہ "میاں صاحب، ہم پر جو گزری یا گزر رہی ہے وہ ہماری قسمت لیکن حیرانگی اس بات سے ہے جو آپ لوگوں پر گزری اُس سے ابھی تک سبق نہیں سیکھا۔"
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اختر مینگل کا بلوچستان عوامی پارٹی کے نگراں وزیراعظم پر اعتراض صوبے میں انتخابی سیاست کی وجہ سے ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے اور وفاق کے نمائندے کے خلاف بات کرنے سے اختر مینگل کو آئندہ انتخابات میں ووٹ لینے میں آسانی ہو گی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ انوارالحق کاکڑ اور اختر مینگل کے درمیان قوم پرست اور وفاق پر یقین رکھنے کے حوالے سے بیانیے میں فرق ہے جس کی وجہ سے اختر مینگل نے اس تعیناتی پر اعتراض کیا ہے۔
نگراں وزیراعطم انوارالحق کاکڑ کی تعیناتی کے اعلان کے بعد بیشتر حلقوں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے ان کی تعیناتی کی حمایت کی گئی۔ لیکن بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر مینگل سابق حکومت کے واحد اتحادی ہیں جنہوں نے اس تعیناتی پر اعتراض کیا اور مشاورت نہ کرنے کا گلہ کیا ہے۔
اختر مینگل نے نواز شریف کے نام اپنے خط میں ماضی کی بات کر کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ موجودہ تعلقات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
اختر مینگل نے نوازشریف کے نام خط میں لکھا ہے کہ "ہمیں جنرل ایوب سے لے کر جنرل مشرف کے مظالم اچھی طرح یاد ہیں لیکن آپ کی جماعت مشرف اور باجوہ کی سازشوں اور غیر آئینی اقدامات کو اتنی جلدی فراموش کر گئی۔"
اختر مینگل نے اپنےخط میں پی ڈی ایم دور میں ہونے والی قانون سازی پر سخت تنقید کی اور کہا کہ یہ آپ حضرات کے خلاف ہی استعمال ہو گی۔
انہوں نے بلوچستان کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہی بلوچستان وہی جبری گمشدگیاں، سیاسی حل کے بجائے بندوق سے مسئلے کے حل کی کوشش، سیاست دانوں کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی طرف آس لگانا یا اُن کی مشاورت سے مسئلے کا حل تلاش کرنا ابھی بھی جاری ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں کون کون نگراں وزیرِ اعظم رہا؟'یہ بیانیے کا فرق ہے'
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی شاہد رند کہتے ہیں کہ اختر مینگل اور انوار الحق کاکڑ کے درمیان بیانیے کا فرق ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد رند کا کہنا تھا کہ اختر مینگل کا بیانیہ قوم پرستی کا ہے جب کہ انوارالحق کاکڑ فیڈریشن یا وفاقیت پر یقین کا بیانیہ رکھتے ہیں۔ ان کے درمیان کوئی ذاتی یا قبائلی تنازع نہیں ہے۔
شاہد رند کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں بلوچستان کے سردار یا نواب ماضی میں وفاق کی سیاست کرتے تھے تو صرف وفاق میں اپنی پوزیشن کے لیے یہ بیانیہ رکھتے تھے لیکن وہ کبھی بھی قوم پرستوں کے خلاف بات نہیں کرتے تھے۔
اُن کے بقول ان میں زیادہ تر مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے سیاست دان شامل ہیں۔ 2006 میں قوم پرستی کے بیانیے کی مخالفت سب سے پہلے انوارالحق کاکڑ اور سرفراز بگٹی نے کی اور اس کے بعد جام کمال بھی ان کے ساتھ شامل ہوئے۔
خیال رہے کہ اگست 2006 میں ایک فوجی آپریشن کے دوران بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی مارے گئے تھے جس کے بعد بلوچستان میں کئی علیحدگی پسند تنظیموں نے جنم لیا تھا اور قوم پرست سیاست کو بھی فروغ ملا تھا۔
شاہد رند کے بقول نوازشریف سے اختر مینگل نے جو گلہ کیا ہے وہ بطور اتحادی اپنی جماعت کی طرف سے کیا ہے۔ بلوچ رہنما سرفراز بگٹی نے اس خط کے جواب میں جو کچھ کہا ہے وہ قابل ذکر ہے کہ اگر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور وزیرِ اعلٰی عبدالقدوس بزنجو پر کوئی اعتراض نہیں تو پھر انوار الحق کاکڑ پر اعتراض کیوں ہے؟
خیال رہے کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور وزیرِ اعلٰی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کو اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھا جاتا ہے۔
شاہد رند نے کہا کہ انوارالحق کاکڑ کے نام پر اعتراض کی اصل وجہ کیا ہے یہ چیز اپنے خط میں اختر مینگل نے نہیں بتائی اور وفاق کی جن باتوں پر وہ ماضی میں ان کے ساتھ رہے اب ان پر اعتراض اٹھایا جا رہا ہے۔
SEE ALSO: انوار الحق کاکڑ نے نگراں وزیرِ اعظم کے عہدے کا حلف اُٹھا لیا'یہ ووٹ بینک کا معاملہ ہے'
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی جلال نورزئی کہتے ہیں کہ اختر مینگل کا یہ بیان صوبے میں آئندہ انتخابات کے حوالے سے صرف اپنی جماعت کے لیے ووٹ حاصل کرنا ہے۔
اُن کے بقول بلوچستان نیشنل پارٹی انتخابات میں جا رہی ہے اور عوام کو اپنی طرف رکھنے کے لیے انہیں کچھ نہ کچھ بیانیہ چاہیے۔
نور جلال زئی کا کہنا تھا کہ ماضی میں صادق سنجرانی کے انتخاب میں اگر اختر مینگل ووٹ نہ دیتے تو حاصل بزنجو چیئرمین سینیٹ بن جاتے، بلوچستان کے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر بھی ایسا ہی ہوا تھا۔
خیال رہے کہ 2019 میں اپوزیشن جماعتوں نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع کرائی تھی جو ناکام ہو گئی تھی۔ اپوزیشن نے سینیٹر حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ کا اُمیدوار نامزد کیا تھا۔
اختر مینگل کی پارٹی اس وقت حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی اتحادی تھی جس نے صادق سنجرانی کی حمایت کی تھی۔
جلال نورزئی کہتے ہیں کہ بلوچستان میں کچھ عرصے سے سیاست دانوں نے معدنی وسائل پر قابض ہونے کی بات کی۔ لیکن ریکوڈک کے بارے میں ہونے والے معاہدے میں تمام اپوزیشن جماعتوں کو بریفنگ دی گئی تھی اور اس میں اختر مینگل موجود تھے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اختر مینگل کا گلہ اس وجہ سے جائز ہے کہ انوار الحق کاکڑ ان کے سیاسی حریف ہیں۔
بلوچستان کے بعض سیاست دان انوار الحق کاکڑ کی اسٹیبلشمنٹ سے مبینہ قربت پر بھی تحفظات کا اظہارکرتے رہے ہیں۔ انور الحق کاکڑ بلوچستان عوامی پارٹی کے بانی ارکان میں سے ایک ہیں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انہیں ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔