|
بھارت کے زیرِانتظام کشمیر کے آزادی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی کی نواسی روا شاہ اور پابندِ سلاسل کشمیری رہنما شبیر احمد شاہ کی بیٹی سماء شبیر دونوں نے بھارت اور اس کے آئین کے ساتھ وفادار رہنے کا اعلان کیا ہے۔
جمعرات کو سرینگر کے اخبارات میں چھپوائے گئے ایک پبلک نوٹس میں سماء شبیر نے کہا ہے کہ وہ یہ واضح کرنا چاہتی ہیں کہ وہ جموں و کشمیر ڈیمو کریٹک فریڈم پارٹی (جے کے ڈی ایف پی) سے کبھی وابستہ رہی ہیں اور نہ اب اُن کا اس کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔
اُن کے والد شبیر شاہ نے استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی ایک قدیم کشمیری تنظیم جموں و کشمیر پیپلز لیگ سے علیحدہ ہونے کے بعد 1998 میں جے کے ڈی ایف پی قائم کی تھی۔
بھارت کی وزارتِ داخلہ نے گزشتہ سال اکتوبر میں جے کے ڈی ایف پی کو ایک غیر قانونی تنظیم قرار دے کر انسدادِ دہشت گردی کے سخت گیر قانون یو اے پی اے کے تحت اس پر پانچ سال کے لیے پابندی عائد کردی تھی۔
بھارتی وزارتِ داخلہ نے تنظیم پر پاکستان کے حق میں سرگرمیاں جاری رکھنے اور جموں وکشمیر میں اس کے بقول دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کے الزامات لگائے تھے۔
بعد ازاں بھارتی وزارتِ داخلہ نے ملک کی ریاستوں اور وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں کو جے کے ڈی ایف پی کے اثاثے ضبط کرنے کا اختیار دے دیا تھا۔
سماء شبیر نے اطلاع نامے میں کہا ہے کہ ان کا جے کے ڈی ایف پی اے کے سیاسی نظریے کی طرف کسی طرح کا بھی جھکاؤ نہیں ہے۔
انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ اگر کوئی شخص یا اشخاص اس کا نام اس تنظیم کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو اُن کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔
نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے "میں مزید کہنا چاہتی ہوں کہ میں بھارت کی ایک وفادار شہری ہوں اور کسی بھی ایسے فرد یا تنظیم کے ساتھ میری کسی بھی طرح کی وابستگی نہیں ہے جو ہند یونین کی حاکمیت کے خلاف ہے۔"
پابندِ سلاسل شبیر شاہ پر کیا الزامات ہیں؟
ان کے والد ستر سالہ شبیر شاہ گزشتہ تقریباً سات برس سے دہلی کی تہاڑ جیل میں بند ہیں۔ اُن پر جو الزامات عائد کیے گیے ہیں اُن میں غیر قانونی ذرائع سے بھاری رقومات حاصل کر کے انہیں جموں و کشمیر میں دہشت گردی کو طول دینے اور دیگر بھارت مخالف سرگرمیوں میں ملوث افراد کی مالی معاونت کے لیے استعمال کرنے کے الزامات بھی شامل ہیں۔
انہیں بھارت کے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے جولائی 2017 میں اس کیس میں گرفتار کیا تھا جو 2005 میں درج کیا گیا تھا۔ اس کیس کے دیگر ملزموں میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ محمد یاسین ملک سمیت تقریباً ایک درجن علیحدگی پسند لیڈر اور کارکن شامل ہیں۔
یاسین ملک کو مئی 2022 میں نئی دہلی کی ایک خصوصی عدالت نے اس کیس میں ٹیرر فنڈنگ، قانونی طور پر قائم کی گئی حکومتِ بھارت کے خلاف جنگ چھیڑنے اور دہشت گرد کارروائیوں کے الزامات میں مجرم قرار دے کر عمر قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی تھیں۔
فردِ جرم میں جن دوسرے کشمیری علیحدگی پسند رہنماؤں اور کارکنوں کو اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث دکھایا گیا ہے ان میں فاروق احمد ڈار عرف بِٹہ کراٹے، مسرت عالم، محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین سمیت دیگر شامل ہیں۔
چارج شیٹ کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کے خلاف بھی دائر کی گئی تھی لیکن استغاثہ نے انہیں اور ایک اور ملزم عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کو مفرور قرار دیا تھا۔ تاہم دخترانِ ملت نامی کشمیری خواتین کی تنظیم کی سربراہ سعیدہ آسیہ اندرابی، پریس فوٹو گرافر کامران یوسف اور ایک اور ملزم جاوید احمد بٹ کو الزمات سے بری قرار دیا گیا۔
سماء شبیر نے 2018 میں انٹر کے امتحانات میں پورے جموں و کشمیر میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے اخباری شہ سرخیوں میں جگہ بنائی تھی۔
انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے 2019 میں اس کیس میں اس کے عدالت میں پیش ہونے کے لیے سمن جاری کیے تھے لیکن وہ اُس وقت برطانیہ میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔
سماء شبیر سرینگر کے آفندی باغ علاقے میں اپنی والدہ بلقیس شاہ جو ایک سرکاری ڈاکٹر ہیں اور اپنی بڑی بہن سحر شبیر شاہ کے ساتھ رہتی ہیں۔ وائس آف امریکہ نے ان سے فون پر رابط قائم کرنے کی کوشش لیکن اُن کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔
'نانا کی حریت کانفرنس سے کوئی تعلق نہیں'
ادھر اسی جیسے پبلک نوٹس میں روا شاہ نے کہا ہے کہ اُن کا حریت کانفرنس کے ساتھ بھی کوئی تعلق نہیں ہے جس کی سربراہی اُن کے نانا کرتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا ہے "میرا اس کے نظریے کی طرف کوئی جھکاؤ ہے اور نہ میں اس کے لیے کوئی ہمدردی رکھتی ہوں۔ اس تنظیم کے لیے میرے نام کا کسی بھی طرح کا استعمال میری طرف سے قانونی کارروائی کا موجب بنے گا۔"
روا شاہ نے اعلان کیا ہے "میں بھارت کی ایک وفادار شہری ہوں اور کسی بھی ایسی تنظیم یا ایسوسی ایشن کے ساتھ وابستہ نہیں ہوں جس کا ایجنڈا ہند یونین کے خلاف ہے۔"
ان کے اس اخباری اطلاع نامے کے بارے میں وائس آف امریکہ نے انہیں واٹس ایپ پر ایک پیغام بھیجا تھا لیکن انہوں نے تاحال اس کا جواب نہیں دیا ہے۔
سید گیلانی کے داماد اور روا شاہ کے والد 66سالہ الطاف احمد شاہ عرف فنتوش اکتوبر 2022میں نئی دہلی کے ایک اسپتال میں انتقال کر گئے تھے۔
حکام نے انتقال سے دو ہفتے پہلے عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے تہاڑ جیل سے نئی دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمز) میں داخل کرایا تھا۔
اُن کی بیٹی روا شاہ نے جو ایک صحافی ہیں بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھ کر اُن کی توجہ تہاڑ جیل میں قید اپنے والد کی گرتی ہوئی صحت کی جانب مبذول کرائی تھی۔
روا شاہ نے گزشتہ برس سرینگر کے ایک نوجوان مونس الاسلام متو سے شادی کی۔ وہ اس سے پہلے ترکیہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ صحافتی میدان میں بھی سرگرم تھیں۔
سن 2021 میں وہ چھٹیاں منانے اپنے آبائی شہر سرینگر آ گئی تھیں اور اسی دوراں ان کے نانا سید گیلانی کا انتقال ہوا۔ یکم ستمبر 2021کو طویل علالت کے بعد انتقال کرنے سے چند ماہ پہلے سید گیلانی نے کُل جماعتی حریت کانفرنس (گیلانی) کے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
روا شاہ اُن کے غیر ملکی سفر پر بھارتی حکومت کی طرف سے مبینہ طور پر عائد کردہ پابندی کی وجہ سے ترکیہ واپس نہیں جا سکی تھیں اور پھر انہوں نے ایک بھارتی اشاعتی ادارے میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔
سوشل میڈیا پر ردِعمل
سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے سماء شبیر اور روا شاہ کو طنز و تنقید کا ہدف بنایا ہے۔
سہیل خان نامی ایک کشمیری نے فیس بک پر لکھا "ہاں، علیحدگی پسند نظریہ پڑوسیوں کے بچوں اور پوتے پوتیوں کے لیے ہے۔"
شاہد بشیر جو پیشے سے وکیل ہیں کا کہنا تھا کہ "ان کے والدین اور آباؤ و اجداد نے علیحدگی پسند نظریے کی پیروی میں کشمیر کی دولت کو لوٹ لیا اور اب ان کی اولاد مین اسٹریم ( بھارت نواز) سیاست میں آ کر یہی کام کرے گی۔"
اس کی تائید کرتے ہوئے ایک اور شہری عبد المجید بٹ نے کہا "بالکل درست کہا۔ علحیدگی پسندوں کے بچوں کو دیکھیے اور اُن کی دولت کو۔ اور غریبوں کے بچوں کو، ان لوگوں نے آزادی کے نام پر صرف مروایا اور انہوں نےخود اپنے گھر بنا لیے۔"
سماجی کارکن اور مصنف سنجے پروا کا کہنا ہے "یہ دونوں نئی نسل کے بچے ہیں۔ ہمیں ان پر طنز کرنا چاہیے اور نہ ان پر تنقید۔ اس سے قطع نظر کہ ان کے بڑوں نے کیا کیا وہ اسی سرزمین کی بیٹیاں ہیں۔"
تجزیہ کا ڈاکٹر ارون کمار کہتے ہیں کہ ان بچوں نے اپنے بڑوں کی وجہ سے مزید مشکلات اُٹھانے کے بجائے یہ راستہ اپنایا جس کی قدر کرنی چاہیے۔