|
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں چند روز کے دوران کسٹم اہلکاروں پر پے در پے حملوں کا معاملہ عوامی اور سیاسی حلقوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔
نامعلوم حملہ آوروں نے ہفتے کی رات ڈیرہ اسماعیل خان ہارک ٹول پلازہ کے قریب گاڑی میں بیٹھے کسٹم اہلکاروں پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں کسٹم کے ایک انسپکٹر، ایک کانسٹیبل سمیت تین افراد ہلاک اور دو زخمی ہو گئے۔
اس سے پہلے بدھ کی رات ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل درابن کی حدود سگو کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے کسٹم انٹیلی جینس کی چلتی گاڑی پر اندھا دُھند فائرنگ کر دی تھی جس کے نتیجے میں چار کسٹم اہلکار موقع پر جان کی بازی ہار گئے تھے۔ واقعے میں دو اہلکار زخمی ہوئے جن میں سے ایک اسپتال میں دم توڑ گیا۔
فائرنگ کے واقعات میں ایک راہ گیر بچی اور کسٹم انٹیلی جینس کا ایک سول اہلکار بھی ہلاک ہو گیا تھا۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے ریجنل پولیس افسر طاہر محمود ستی کہتے ہیں کہ کسٹم اہلکاروں پر حملہ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کا ردِعمل ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 35 دہشت گرد مارے گئے تھے جس کے ردِعمل میں دہشت گردی حکومتی اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
ہفتے کی شب پیش آنے والے واقعے میں مقامی چینل 'اے آر وائی نیوز' کی ڈی ایس این جی وین بھی زد میں آ گئی تھی، تاہم عملے کے ارکان محفوظ رہے تھے۔
اے آر وائی نیوز' پشاور کے بیورو چیف ضیاء الحق کے مطابق چینل کی گاڑی ضمنی الیکشن کی کوریج کے لیے جا رہی تھی کہ ٹول پلازہ کے قریب ہونے والی فائرنگ کی زد میں آ گئی۔
اُن کے بقول کچھ فائر ڈی ایس این جی وین کو بھی لگے، تاہم ڈرائیور نے گاڑی بھگا دی جس کی وجہ سے عملے کے ارکان محفوظ رہے۔
بدھ کی شب پیش آنے والے واقعے کی ذمے داری کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی تھی۔ تاہم ہفتے کی رات کے واقعے کی ذمے داری تاحال کسی گروپ نے تسلیم نہیں کی۔
خیبرپختونخوا پولیس کے انسپکٹر جنرل اختر حیات خان گنڈا پور نے چند روز قبل ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان حملوں کی مختلف زایوں سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے دہشت گردوں کا نشانہ
ڈیرہ اسماعیل خان کے مختلف علاقوں بالخصوص تحصیل کلاچی اور درابن میں مبینہ عسکریت پسندوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً کارروائیاں ہوتی رہی ہیں۔
ان علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں، چوکیوں اور کیمپوں پر حملے بھی ہوتے رہے ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں کسٹمز اہلکاروں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کی تھی جب کہ عید سے ایک روز قبل خیبر پختونخوا کے محکمہ ایکسائز کے چند اہلکاروں کو مبینہ عسکریت پسندوں نے اغوا کر کے چند گھنٹوں کے لیے یرغمال بنایا تھا۔
ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار اور مقامی افراد کا کہنا ہے کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کو ملانے والی شاہراہ پر دہشت گردوں کی کارروائیاں روکنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
طاہر محمود ستی کہتے ہیں کہ پولیس فورس سمیت تمام سیکیورٹی اداروں کے افسران اور اہلکار اس خطے میں روپوش اور سرگرم دہشت گردوں کے خلاف سرگرم ہیں۔
اُن کے بقول دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے بعد یہ آسان ہدف تلاش کرتے ہیں۔
طاہر محمود ستی کا کہنا تھا کہ کسٹمز حکام کو پیٹرولنگ حکمتِ عملی میں تبدیلی لانے اور پولیس کو مطلع کرنے کے مشورے دیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کو پیٹرولنگ اور ناکہ بندی کے شیڈول سے آگاہ کرنے کے بعد کسٹمز اہلکاروں پر عسکریت پسندوں کے حملوں کی روک تھام ممکن ہو گی۔