تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین کی جانب سے یورپ و ایشیا میں تیز رفتار ریلوے نظام کی تعمیر میں بہتری لانے کے نتیجے میں بڑی صنعتی پیداوار کا حامل یہ ملک مختلف ملکوں کو ایک ایسے وقت میں اشیا اور مصنوعات تیزی سے فراہم کرسکے گا، جب کہ سامان کی نقل و حمل کے لیے سپلائی چینز پر دباؤ میں بے انتہا اضافہ ہو چکا ہے۔
سرکاری تحویل میں کام کرنے والی چینی زبان کی 'فنانشل نیوز' ویب سائٹ کے مطابق، چین کے ترقیاتی بینک نے پراجیکٹ کی منظوری دے کردسمبر میں تعمیراتی کام میں معاونت کا اعلان کیا تھا، اور اب اسی سلسلے میں چین سے بیرون ملک سامان لانے لے جانے کے لیے ریلوے کے جال کو جدید کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بینک گوداموں، لاجسٹک پارکس، تقسیم کے بہتر نظام اور وسیع جہتی ٹرانسپورٹ پراجیکٹس کے لیے کلیدی معاونت فراہم کرے گا۔ چین سے یورپ تک ریلوے ایکسپریس کا مال برداری کا راستہ 12000کلومیٹر طویل ہے، جو مختلف ممالک کی سرحدوں سے ہوتا ہوا جاتا ہے۔
ماہرین نے بتایا ہے کہ اس گیارہ سالہ پرانے روٹ پر ریلوے لائن کو جدید بنانے کے نتیجے میں ریل گاڑیاں مزید تیز رفتاری سے چل سکیں گی۔ انھوں نے کہا کہ بہتری یقینی بنانے کے نتیجے میں یوکرین میں لڑائی کے باوجود ریل گاڑیاں سفر جاری رکھ سکیں گی، جب کہ وبا کے نتیجے میں سمندر کے ذریعے سامان کی نقل و حمل میں ہونے والی تاخیر سے بھی نمٹا جا سکے گا۔
SEE ALSO: یورپی یونین کا چین کے 'بیلٹ اینڈ روڈ' کے مقابلے میں بڑے انفراسٹرکچر منصوبے پر اتفاقاس کے نتیجے میں چینی برآمدات یورپ کی منڈیوں تک باقاعدگی کے ساتھ پہنچتی رہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ وہ مختلف براعظموں سے حاصل ہونے والے سے بھی فیض یاب ہو سکے گا۔
جیمز برکلے لندن میں ایلس کنسلٹنگ کمپنی کے مشیر ہیں۔ ان کے بقول، کووڈ 19 کے لاک ڈاؤنز اور یوکرین میں لڑائی کے باعث بیرونی ملکوں کے لیے چین سے برآمدات متاثر ہوئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ سمندر کے ذریعے باربرداری جاری ہے، لیکن ریلوے ایک اہم متبادل ذریعہ بن سکتا ہے۔
چین کے اہم کاروباری مراکز، شنزین اور شنگھائی میں، جہاں ٹیلی فونز سے لے کر موٹر گاڑیوں کے پرزہ جات تیار کیے جاتے ہیں، لاک ڈاؤن کی وجہ سے صنعتی پیداوار بری طرح متاثر ہوئی اور مصنوعات کی ترسیل سست پر گئی۔ دو کروڑ 60 لاکھ نفوس پر مشتمل ان شہروں کو کئی ہفتوں کے بعد اب کھولا گیا ہے۔
فروری میں یوکرین پر روسی حملے کے بعد براعظموں کے درمیان ریلوے کی ٹریفک میں خلل پڑا، جا کے نتیجے میں یورپ کے لیےبحری ذریعے سے ترسیل کا کام متاثر ہوا۔
فنانشل نیوز نے مزید کہا ہے کہ ریلوے کے نظام میں جدت لانا اور کارکردگی بڑھانا چین کے صدر شی جن پنگ کے 'بیلٹ اینڈ روڈ انی شئیٹو' کے مطابق ہے۔ چار ٹریلین ڈالر سے زائد مالیت کے اس آٹھ سالہ پرانے پراجیکٹ کا مقصد بیسیوں ملکوں میں انفراسٹکچر کو جدید بنانا ہے، تاکہ تجارتی راستوں میں بہتری لائی جا سکے۔