امریکہ کے ایک تھنک ٹینک اور ریسرچ لیب ’ایڈ ڈیٹا‘ نے چین کے مختلف ممالک میں ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبوں کے تحت قرضے دینے اور سرمایہ کاری کے طریقۂ کار کے بارے میں رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران چین نے بین الاقوامی ترقیاتی سرمایہ کاری کے لیے ریکارڈ رقم فراہم کی ہے۔
ایڈ ڈیٹا کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جو چین سے قرض حاصل کرنے والا ساتواں بڑا ملک ہے۔ چین کی طرف سے فنڈ اور قرضہ جات کے معاملات خفیہ رکھے جاتے ہیں۔
بدھ کو جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق بیجنگ کی بیرون ملک ترقیاتی سرمایہ کاری کے پورٹ فولیو کے بارے میں تفصیلی معلومات ظاہر کرنے میں ہچکچاہٹ نے اخراجات اور فوائد کو معروضی طور پر جانچنے کو مشکل بنا دیا ہے۔
چین نے امدادی اداروں اور ترقیاتی بینکوں کے لیے بھی مشکل بنا دیا ہے کہ وہ عالمی مسائل کو حل کرنے کے لیے چین کا مقابلہ کر سکیں یا عوامل کو جانچ سکیں۔
’ایڈ ڈیٹا‘ نے چین کے مختلف منصوبوں پر کام کرنے کو ان پر قبضہ کرنے سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں کے ذریعے 18 برس میں چین نے دنیا کے 165 ممالک میں آٹھ کھرب 43 ارب ڈالر مالیت کے 13 ہزار 427 منصوبوں پر قبضہ کیا ہے۔
چین بین الاقوامی ترقیاتی سرمایہ کاری کے وعدوں کے ساتھ سالانہ تقریباََ 85 ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ چین نے بین الاقوامی ترقیاتی مالیاتی مارکیٹ میں غالب پوزیشن قائم کرنے کے لیے امداد کے بجائے قرض کا استعمال کیا ہے۔
چین کی ترقیاتی سرمایہ کاری
’ایڈ ڈیٹا‘ کے مطابق بیجنگ کے پالیسی بینک، چین ایگزیم بینک اور چائنا ڈویلپمنٹ بینک نے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں سے قبل بیرونِ ملک قرضوں میں توسیع کی تھی۔ تاہم بینک آف چائنا، انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنا اور چائنا کنسٹرکشن بینک نے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں کے دور میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
بیلٹ اینڈ روڈ کے نفاذ کے ابتدائی پانچ برس کے دوران ان کی بیرونِ ملک قرضے دینے کی سرگرمیوں میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق چین کے سرکاری ملکیت کے قرض دہندگان نے بڑے منصوبوں اور کریڈٹ رسک پر اعلیٰ سطح پر کام کیا۔ انہوں نے ادائیگی کے مضبوط حفاظتی انتظامات کیے۔
کم اور درمیانی آمدن والے ممالک پر چین کے قرضے
بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں سے قبل چین کے بیرونِ ملک قرضوں کی اکثریت خود مختار قرض لینے والوں یعنی مرکزی حکومت کے ماتحت اداروں کو دیے جاتے تھے۔ البتہ روڈ اینڈ بیلٹ کے بعد ایک بڑی تبدیلی واقع ہوئی۔ چین کے بیرون ملک قرضوں کا تقریباََ 70 فی صد حصہ اب سرکاری کمپنیوں، سرکاری بینکوں، مشترکہ منصوبوں اور دیگر نجی اداروں کو دیا گیا ہے۔
یہ قرضے زیادہ تر حکومت کی بیلنس شیٹ پر ظاہر نہیں ہوتے۔ تاہم ان میں سے بیشتر میزبان حکومت کی ذمہ داری کے تحت فراہم کیے جاتے ہیں۔ 42 ممالک میں اب چین پر عوامی قرضوں کی سطح جی ڈی پی کے 10 فی صد سے زیادہ ہو چکا ہے۔
اس وقت رپورٹ شدہ قرضہ جات کی مالیت تقریباََ 38 ارب 35 کروڑ 80 لاکھ ڈالر ہے۔
ایڈ ڈیٹا کے مطابق بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں کو بہت سے چینلنجز کا سامنا ہے جن میں بدعنوانی، مزدوروں کے حقوق یا قوانین کی خلاف ورزی، ماحولیات پر پڑنے والے اثرات اور عوامی احتجاج شامل ہیں۔
ایڈ ڈیٹا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ کی حمایت کو برقرار رکھنے کے لیے بیجنگ کو میزبان ممالک کے خدشات کو دور کرنے کی ضرورت ہو گی۔ مستقبل قریب میں چین کو عالمی سطح ہر انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے لیے اعلیٰ سطح کے مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکہ کی حکومت اور اس کے اتحادی ایک نئے انفراسٹرکچر اقدام کے تحت جمع ہو رہے ہیں جو ان ممالک کے بقول پائیدار اور شفاف فنانسنگ، بہتر انتظام کے ساتھ کام کرے گا۔
چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں کے تحت جن بڑے ممالک میں سرمایہ کاری کی گئی ہے ان میں پاکستان بھی شامل ہے جہاں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے منصوبوں میں چین نے اربوں ڈالر لگائے ہیں۔
پاکستان کے لیے قرضوں پر سود کا کمرشل ریٹ
پاکستان میں زیادہ تر منصوبوں کے لیے چین نے تجارتی قرضے دیے ہیں جن کی شرح سود کمرشل ریٹ کے برابر ہے۔
ایڈ ڈیٹا کی رپورٹ کے مرکزی مصنف عمار اے ملک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چین نے 2000 سے 2017 تک پاکستان کو 34 ارب 40 کروڑ ڈالر فراہم کیے تھے اور ان میں سے 27 ارب ڈالر قرض کی صورت میں دیے گئے ہیں اور باقی چار ارب ڈالر امداد ہے۔
ان چار ارب ڈالرز کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ ایسی رقم ہے جس کی واپسی یا تو مطلوب نہیں یا اس کی شرائط نہایت آسان رکھی گئی ہیں۔
عمار ملک کے بقول پاکستان کو چین کی طرف سے فراہم کیے جانے والے فنڈز کا 80 فی صد قرضے پر مشتمل ہے۔ ان قرضہ جات پر تجارتی شرح سود اوسطاََ 3.76 فی صد ہے جو دیگر ممالک سے پاکستان کو ملنے والے قرضوں سے زیادہ شرح سود ہے۔
عمار ملک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سی پیک کے تحت مکمل ہونے والے توانائی کے منصوبوں میں حکومت پاکستان نے چینی کمپنیوں کو سرمایہ کاری پر منافع دینے کی ضمانت دی ہے۔ اگر بجلی کی طلب میں کمی آتی ہے تو حکومت پاکستان کے لیے یہ معاملہ بوجھ بن سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں توانائی کے منصوبوں کے لیے چین نے لگ بھگ 20 ارب ڈالرز فراہم کیے تھے جوں جوں ڈالر کی قیمت روپے کے مقابلے بڑھے گی تو پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بھی بڑھتا جائے گا۔
اقتصادی امور کے ماہر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سی پیک کے تحت توانائی کے 17 منصوبے شروع ہوئے اور ان میں سے نو منصوبے مکمل ہو چکے ہیں اور دیگر ابھی مکمل ہونا ابھی باقی ہیں۔
دوسری جانب سی پیک پر پاکستان کے وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی خالد منصور حال ہی میں یہ کہہ چکے ہیں کہ چین کی کمپنیوں کو توانائی کی مد میں واجب الادا ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کی ادائیگی کے لیے بات چیت جاری ہے۔
ایڈ ڈیٹا کی رپورٹ پر اگرچہ پاکستان کے حکام کا تاحال کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔ البتہ اسلام آباد کا یہ مؤقف رہا ہے کہ سی پیک کے تحت جاری منصوبے پاکستان پر بوجھ نہیں ہیں بلکہ یہ معشیت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے معاون ہوں گے۔
سی پیک کے تحت مکمل ہونے والے 600 کلو واٹ کی مٹیاری تا لاہور ٹرانسمیشن لائن کی افتتاحی تقریب سے جمعرات کو اسلام آباد میں خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے سی پیک کے منصوبے متاثر ہوئے ہیں البتہ ایک بار پھر یہ منصوبے تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صنعت و زراعت کے شعبوں میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے پاکستان مالی وسائل میں اضافہ کرکے قرضوں کے بوجھ کو کم کر سکتا ہے۔