|
اسلام آباد -- "میں شاپنگ مال میں شاپنگ کے بعد تھک کر بیٹھا ہوا تھا اور پاکستان میں اپنی فیملی سے بات کر رہا تھا کہ اچانک پولیس آئی اور میرے قریب کھڑے 10، 12 نوجوانوں سمیت مجھے بھی آ کر پکڑا اور پولیس اسٹیشن لے گئے، مجھے تو سمجھ ہی نہیں آئی کہ ہوا کیا ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ مجھ پر خواتین کی ویڈیوز بنانے کا الزام ہے۔"
یہ کہنا ہے دبئی میں گرفتار ہو کر رہا ہونے والے محمد ہارون (فرضی نام) کا جو دبئی میں اپنی ملازمت کے اوقات کے بعد شاپنگ سینٹر میں فیملی سے بات کر رہے تھے کہ انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
گرفتاری کے بعد ان کے موبائل فون کو چیک کیا گیا اور اس میں سے خاتون کی ویڈیو نہ ملنے پر انہیں رہا کردیا گیا۔ لیکن ان کے ساتھ گرفتار ہونے والے کئی نوجوانوں کو گرفتاری کے بعد سزائیں ملیں اور انہیں بعد میں ڈی پورٹ کر دیا گیا۔
دبئی میں ایک عرصے سے یہ شکایات سامنے آ رہی ہیں کہ یہاں سے ملازمت یا وزٹ پر آنے والے کچھ پاکستانی افراد خواتین کی اجازت کے بغیر اُن کی ویڈیوز بناتے ہیں اور انہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیتے ہیں۔
دبئی حکام کے مطابق بعض پاکستانی سوشل میڈیا پر دبئی کے قوانین کا مذاق اُڑانے میں بھی ملوث ہیں جب کہ کچھ عرصہ قبل دبئی میں ہونے والی بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی پر بھی پاکستانیوں نے قیاس آرائیوں پر مبنی ویڈیوز بنائیں۔
اماراتی حکام ان سوشل میڈیا پوسٹس سے شدید نالاں ہیں اور اس بارے میں پاکستانی حکام کو آگاہ بھی کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے جن اضلاع کے افراد ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں وہاں کے افراد کے ویزوں پر بھی غیر اعلانیہ پابندی ہے۔
حکومتِ پاکستان بھی اس صورتِ حال سے شدید پریشان ہے اور چند روز قبل پاکستان کی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اوورسیز پاکستانیر کے اجلاس میں بھی اس پر بات کی گئی ہے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ متحدہ عرب امارات میں ہونے والے 50 فی صد جرائم میں مبینہ طور پر پاکستانیوں کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے ملکوں کے شہریوں کو نوکری کے لیے ترجیح دی جاتی ہے۔
سینیٹر ذیشان خانزادہ کی زیرِ صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اوورسیز کے اجلاس میں سیکریٹری اوورسیز نے بریفنگ دی۔
پاکستان سے ہر سال روزگار کی تلاش اور سیاحت کے لیے آٹھ لاکھ سے زائد پاکستانی متحدہ عرب امارات جاتے ہیں۔ لیکن ماہرین کے مطابق اب ان کی تعداد کم ہو رہی ہے اور دیگر ممالک سے ورکرز کو لایا جا رہا ہے۔
'یہ وہ لوگ ہیں جو وزٹ ویزے پر جاتے ہیں'
چیئرمین اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹر ایسویسی ایشن اسد کیانی کہتے ہیں کہ ہر سال لاکھوں لوگ بیرون ملک جا رہے ہیں اور کئی ممالک میں ورکرز کی کمی کو پورا کیا جا رہا ہے۔ لیکن متحدہ عرب امارات میں جو شکایات سامنے آ رہی ہیں ان میں زیادہ تر شکایات ان لوگوں کی ہیں جو وزٹ ویزے پر وہاں جاتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اسد کیانی نے کہا کہ ہمارے جو بھی ملازمین پروموٹرز کے ذریعے بیرون ملک جاتے ہیں جانے سے پہلے ان کی پولیس ویری فکیشن کروائی جاتی ہے۔
اس کے بعد ان کا میڈیکل اور دیگر لوازمات پورے کرنے کے بعد بیرون ملک سے ملازمتیں دینے والی کمپنی انٹرویوز کے بعد ملازمین کا انتخاب کرتی ہے۔
اُن کے بقول بیش تر کمپنیوں میں جا کر کام کرنے والوں کو رہائش اور کھانا کمپنی کی طرف سے دیا جاتا ہے اور ایسے ملازمین اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور وہاں کے قوانین کو کسی طرح چیلنج نہیں کرتے۔
اسد کیانی کہتے ہیں کہ جو شکایات موصول ہو رہی ہیں ان میں سے زیادہ تر وزٹ ویزہ پر جانے والوں کی ہے۔ مختلف ٹریول ایجنٹس پیسے لے کر 72 گھنٹوں کے اندر ایک سے دو ماہ کا ویزہ دلوا دیتے ہیں اور وہاں جانے والے یہ افراد اکثر ایسی حرکتوں میں ملوث ہوتے ہیں۔
اسد کیانی نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل دبئی میں ہونے والی بارشوں کے بعد ہمیں کچھ شکایات موصول ہوئیں جن میں وہاں کام کرنے والے افراد کی ٹک ٹاک ویڈیوز سامنے آئی تھیں۔
اُن کے بقول اب لوگوں کو ہم انتباہ کرتے ہیں کہ ایسی کسی ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد انہیں ڈی پورٹ کیا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے اب ایسے افراد کی تعداد خاصی کم ہو گئی ہے۔
'کسی شخص کے انفرادی فعل کو روکنا بہت مشکل ہوتا ہے'
سینیٹر ذیشان خانزادہ کہتے ہیں کہ ملک میں پچھلے دو تین سال میں حالات خاصے خراب ہیں اور ملکی حالات کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد بیرون ملک جانا چاہتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پہلے 25 ہزار پاسپورٹ بنتے تھے اب 50 ہزار بن رہے ہیں۔ جیریز اور دیگر ادارے جو ویزہ میں معاون ہیں وہاں شدید رش دیکھنے میں آرہا ہے۔
اُن کے بقول یہی وجہ ہے کہ اس قدر رش کی وجہ سے اسکروٹنی کا عمل متاثر ہو رہا ہے اور مختلف مافیاز بشمول بھکاری بھی ملک سے باہر جانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
SEE ALSO: دو سال میں لاکھوں ہنرمند پاکستانی ملک کیوں چھوڑ گئے؟ذیشان خانزادہ کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے سینیٹ کی ایک سب کمیٹی بنائی جس میں وزارتِ خارجہ، وزارتِ داخلہ، وزارتِ تعلیم اور دیگر اداروں کے نمائندوں کو شامل کیا گیا ہے۔ کوشش کی جا رہی ہے کہ مناسب تربیت دے کر لوگوں کو باہر بھیجا جائے تاکہ ملک کا تشخص خراب ہونے سے بچایا جا سکے۔
اس سوال پر کہ بعض لوگوں ملک سے باہر بیٹھ کر پاکستان پر تنقید کرتے ہیں جن میں کچھ سیاسی جماعتوں کے حمایتی بھی شامل ہیں؟
اس پر ذیشان خانزادہ کا کہنا تھا کہ کسی بھی شخص کو انفرادی طور پر نہیں روکا جا سکتا۔ سوشل میڈیا کسی کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ بیرون ملک جانے والے کئی لوگ سیاسی پناہ لے رہے ہیں۔
ذیشان خانزادہ نے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہماری لائف لائن ہیں کیوں کہ ان کے بھیجے گئے ڈھائی سے تین ارب ڈالر سے ہی ملک چل رہا ہے۔
قائمہ کمیٹی کی بریفنگ میں مزید کیا ہوا؟
بریفنگ کے دوران سیکریٹری وزارت اوورسیز نے ایوان کی کمیٹی کو بتایا کہ سعودی عرب میں اس وقت 20 لاکھ پاکستانی سات ارب ڈالرز کا زرِمبادلہ سالانہ بھیجتے ہیں۔
وزارتِ اوورسیز کے حکام نے بتایا کہ بیرون ملک مجرمانہ سرگرمیوں میں سب سے زیادہ پاکستانی ملوث ہیں۔
بریفنگ کے دوران سعودی عرب کی جانب سے 92 نرسیں ڈگریاں نہ ہونے کے باعث واپس بھجوائے جانے کا انکشاف بھی ہوا۔ سیکریٹری وزارتِ اوورسیز نے بتایا کہ اس معاملے کی تحقیقات میں پتا چلا نرسوں کی واپسی کا ذمہ دار مڈل مین ہے۔
اجلاس میں حکام وزارت سمندر پار پاکستانیز کا کہنا تھا کہ ہم چھ سے آٹھ لاکھ لوگ باقاعدہ بارڈر کے ذریعے بھیج رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی کشتیوں میں لوگ پکڑے جا رہے ہیں۔ یہ پاکستان کا تشخص خراب کر رہے ہیں، باہر والے ہم سے تنگ ہیں۔
متحدہ عرب امارات میں پاکستان سے گئے افراد کی نامناسب حرکتوں کے بارے میں حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ دبئی میں خواتین بیٹھی ہوتی ہیں اور پاکستانی ان کے سامنے ویڈیوز بنانا شروع کر دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ دبئی میں پاکستانی وی لاگرز لوگوں سے غزہ سے متعلق سوال شروع کر دیتے ہیں۔ اس بارے میں امارات نے دبے الفاظ میں یہ کہا ہے کہ بھیجنے والے لوگوں کا رویہ بہتر بنانے کی تربیت نہ کی تو مسائل پیدا ہوں گے۔
حکام نے بتایا کہ کئی ممالک سے پاکستانیوں کی عجیب و غریب ٹک ٹاکس بنانے کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ پاکستانیوں نے امارات میں ہونے والی بارش پر عجیب توجیہات پیش کیں اور لوگوں کے لباس پر پاکستانی وہاں ٹک ٹاکس بناتے ہیں۔
سیکریٹری اوورسیز پاکستانیز نے کہا کہ دوسرے ممالک ہمارے شہریوں کے ایسے رویوں اور اخلاقیات سے مایوس ہو رہے ہیں۔
وزارت کے حکام نے بتایا کہ مشرق وسطیٰ کا رخ ان باتوں کی وجہ سے اب افریقہ کی جانب ہو گیا ہے اور یہ ہمارے لیے تشویش ناک ہے۔
افریقہ کی لیبر پاکستان سے بھی سستی ہے اور اگر یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو مستقبل میں پاکستان سے لیبر امارات بھجوانے کا سلسلہ مزید محدود ہو جائے گا۔