تحریکِ انصاف پر پابندی کا اعلان؛ عمل درآمد میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟

  • حکومت نے دو ہفتے قبل پاکستان تحریکِ انصاف پر پابندی کا اعلان کیا تھا۔
  • اتحادی جماعتوں بشمول پاکستان پیپلزپارٹی سمیت دیگر جماعتوں نے اس فیصلے پر واضح مؤقف اختیار نہیں کیا تھا۔
  • مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کا تحریکِ انصاف پر پابندی کا اعلان جلد بازی پر مبنی تھا۔
  • حکومت نے پابندی کا شوشہ چھوڑ کر عمران خان کے مقدمات اور بجلی کے بلوں جیسے عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی: تجزیہ کار سلمان غنی
  • سیاسی جماعتیں آپس میں بات چیت کو تیار نہیں ہیں جس کی وجہ سے غیر یقینی بڑھ رہی ہے: تجزیہ کار عارفہ نور

اسلام آباد -- پاکستان کی وفاقی حکومت حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی کے حوالے سے تاحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکی۔

اس ضمن میں حکومتی وزرا اور اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کے متضاد بیانات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تحریکِ انصاف پر پابندی کے معاملے پر تاحال اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا۔

اگرچہ حکومت پی ٹی آئی پر پابندی کے اپنے اعلان سے پیچھے نہیں ہٹی۔ لیکن دو ہفتے گزر جانے کے باوجود اس معاملے پر زیادہ پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کا تحریکِ انصاف پر پابندی کا اعلان جلد بازی پر مبنی تھا اور اس پر عمل درآمد اسی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو رہا ہے۔

صحافی و تجزیہ نگار عارفہ نور کہتی ہیں کہ تحریکِ انصاف پر پابندی کے اعلان کے بعد سامنے آنے والے ردِعمل اور اتحادی جماعتوں سے حمایت نہ ملنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ حکومت اس معاملے پر گومگو کا شکار ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کو اندازہ ہوا ہے کہ تحریکِ انصاف پر پابندی لگانا مشکل ہے کیوں کہ اس عمل کی سپریم کورٹ سے توثیق بھی درکار ہو گی۔

وہ کہتی ہیں کہ حکومت یہ اعتراف کرنے کو تو تیار نہیں کہ اس سے غلطی ہوئی ہے۔ لیکن زور و شور سے اعلان کردہ اس فیصلے پر اب خاموشی سی چھا گئی ہے۔

وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے 15 جولائی کو ایک پریس کانفرنس میں تحریکِ انصاف پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا۔

عطا تارڑ نے دعویٰ کیا تھا کہ تحریکِ انصاف کے خلاف ایسے ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں جس کی بنا پر اس پر پابندی لگائی جائے گی اور کابینہ سے پابندی کی منظوری کے بعد معاملہ سپریم کورٹ کو بھیجا جائے گا۔

'پابندی کے اعلان نے حکومت کی مشکلات بڑھا دیں'

صحافی و تجزیہ نگار سلمان غنی کہتے ہیں کہ حکومت نے پابندی کا اعلان جلد بازی میں کیا جس پر نہ صرف جماعت کے اندر سے اختلافی آوازیں اٹھیں بلکہ اتحادی جماعتیں بھی ساتھ کھڑی نہیں ہوئیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا جب سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں تحریکِ انصاف کو پارلیمانی پارٹی کے طور پر تسلیم کیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ اس صورتِ حال میں حکومت کے لیے سپریم کورٹ سے پابندی کے فیصلے کی توثیق کرانا آسان نہیں تھا۔

سلمان غنی کہتے ہیں کہ حکومت نے پابندی کا شوشہ چھوڑ کر عمران خان کے مقدمات اور بجلی کے بلوں جیسے عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی البتہ اس اعلان نے حکومت کو مزید مشکل میں ڈال دیا ہے۔

ان کے بقول حکومت بھنور میں پھنس چکی ہے اور تحریکِ انصاف سے نمٹنے کا ان کے پاس کوئی سیاسی راستہ نہیں ہے۔

امریکہ نے بھی تحریکِ انصاف پر پابندی کے حکومتی اعلان کے بعد اپنے ردِعمل میں کہا تھا کہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی واشنگٹن کے لیے باعثِ تشویش ہو گی۔

پابندی کے اعلان کے بعد تحریکِ انصاف کو مذاکرات کا حکومتی مشورہ

تحریکِ انصاف پر پابندی کے اعلان کے بعد حکومت نے حزبِ اختلاف کی جماعت کو مذاکرات کی میز پر آنے کا بھی مشورہ دیا ہے۔

وفاقی وزیر ڈاکٹر مصدق ملک نے پریس کانفرنس کے دوران پاکستان تحریک انصاف کو پھر مذاکرات کی دعوت دی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی والے آئیں، بیٹھیں اوربات کریں۔ صرف ملک دشمن عناصر ترقی میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔‘

سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی رہنما عرفان صدیقی نے کہا کہ تحریکِ انصاف کے ساتھ مذاکرات کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں، لیکن اب ہماری طرف سے پیش کش نہیں کی جائے گی۔

مذاکرات کی اِس پیش کش کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کی تحریکِ انصاف سے متعلق حکمتِ عملی میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا حکومت پابندی کے اپنے اعلان سے پیچھے ہٹ رہی ہے؟

مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت اور تحریکِ انصاف دونوں مذاکرات سے سیاسی مسائل کے حل میں سنجیدہ نہیں ہیں جو کہ صورتَ حال کو مزید گھمبیر بنا دے گا۔

عارفہ نور کہتی ہیں کہ نہ تو حکومتی اتحاد مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہے اور نہ ہی پی ٹی آئی کے پاس آگے کا واضح راستہ اور حکمتِ عملی پائی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں آپس میں بات چیت کو تیار نہیں ہیں جو کہ صورتِ حال کو مزید ابہام اور غیر یقینی کی طرف لے کر جائے گا۔

سلمان غنی نے کہا کہ صورتِ حال کا جائزہ لیں تو حکومت کے تحریکِ انصاف کو دبانے کے تمام اقدمات ناکام رہے ہیں اور ان اقدمات کی بدولت عمران خان کی سیاسی حیثیت بڑھی ہے۔

'فوج کی پالیسی میں تبدیلی نہیں آئی'

عارفہ نور کے بقول فوج کی جانب سے تحریکِ انصاف کے حوالے سے کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔ لہذا موجودہ صورتِ حال میں اس وقت تک تبدیلی نہیں آ سکتی جب تک اسٹیبلشمنٹ اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی نہیں لاتی۔

انہوں نے کہا کہ اسی بنا پر پارلیمنٹ میں بھی کسی تبدیلی کے امکانات نہیں کیوں کہ تحریکِ انصاف کے لیے یہ انتخابی نتائج تسلیم کرنا مشکل ہے اور اگر انتخابی تنائج میں کوئی تبدیلی لائی جاتی ہے تو یہ دیگر جماعتوں کو قبول نہیں ہو گا۔

پابندی کے اعلانات اور مذاکرات کے مشوروں کے اس ماحول میں تحریکِ انصاف نے اعلان کیا کہ وہ عمران خان کی گرفتاری کا ایک برس مکمل ہونے پر پانچ اگست کو ملک بھر میں جلسے اور احتجاجی مظاہرے کریں گے۔