تحریکِ انصاف نے منگل کی شب ڈی چوک پر کریک ڈاؤن کے بعد احتجاج منسوخ کر دیا تھا۔ تحریکِ انصاف کے کارکنوں کو منتشر کرنے کو حکومت اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے۔ تحریکِ انصاف کا کہنا ہے کہ نہتے شہریوں کے خلاف ریاست نے طاقت کا ناجائز استعمال کیا اس لیے فی الحال احتجاج منسوخ کیا جا رہا ہے۔ رکاوٹوں کے باوجود تحریکِ انصاف کے کارکن ڈی چوک پہنچ گئے، یہ اُن کی کامیابی تھی: تجزیہ کار چوہدری غلام حسین سیاسی جماعتوں کو طاقت سے دبانے کا نتیجہ انتہاپسندی میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے: تجزیہ کار حامد میر
|
لاہور -- پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے اسلام آباد میں احتجاج کی منسوخی کو حکومت اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے جب کہ تحریکِ انصاف کا الزام ہے کہ سیکیورٹی اہلکاروں نے نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا جس کی وجہ سے احتجاج منسوخ کرنا پڑا۔
منگل کی شب پولیس اور سیکیورٹی اہلکاروں نے ڈی چوک پہنچنے والے مظاہرین پر شیلنگ کی تھی جس کے بعد مارچ کی قیادت کرنے والی بشریٰ بی بی اور وزیرِ اعلٰی علی امین گنڈا پور خیبرپختونخوا چلے گئے۔
بعدازاں مرکزی قائدین کو خیبرپختونخوا سے اسلام آباد لانے والے کنٹینر کو بھی آگ لگا دی گئی تھی۔
عمران خان کی جانب سے دی گئی 'فائنل کال' کے باوجود تحریکِ انصاف اپنے مقاصد کے حصول میں کیوں ناکام رہی؟ کیا پی ٹی آئی رہنماؤں کے درمیان مبینہ اختلافات احتجاج منسوخ ہونے کی وجہ بنے؟ اس حوالے سے وائس آف امریکہ نے ماہرین سے بات کی ہے۔
'یہ پی ٹی آئی کی ناکامی نہیں ہے'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار چوہدری غلام حسین سمجھتے ہیں کہ رکاوٹوں کے باوجود تحریکِ انصاف کے کارکنوں کی بڑی تعداد اسلام آباد پہنچی۔ حالاں کہ حکومت دعویٰ کر رہی تھی کہ کسی کو دارالحکومت میں داخلے کی اجازت نہیں ہو گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ تمام تر حربوں کے باوجود جب حکومت مارچ کو نہیں روک سکی تو پھر تشدد کا راستہ اختیار کیا گیا۔
چوہدری غلام حسین کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کے احتجاج کو ناکام نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اُنہوں نے ڈی چوک پر دھرنا دینے کا کہنا تھا جس پر وہ عمل نہیں کر سکے۔
تجزیہ کار اور کالم نویس مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ تحریکِ انصاف کے اندر بطور جماعت ایک کنفیوژن ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس ساری صورتِ حال میں ایسا لگا کہ فیصلے کا اختیار بشریٰ بی بی نے لے لیا تھا۔ لیکن پی ٹی آئی کے لیے اس کا کوئی اچھا نتیجہ نہیں نکلا۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ احتجاج میں زیادہ تر لوگوں کا تعلق خیبرپختونخوا سے تھا، جو دو روز سے سفر کر رہے تھے اور تھکے ہوئے تھے جنہیں ڈی چوک کی طرف موڑ دیا گیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر تحریکِ انصاف ڈی چوک کے بجائے کسی اور مقام پر دھرنا دینے پر رضامند ہو جاتی تو کارکنوں کو بھی کوئی گلہ نہ ہوتا اور وہ حکومت پر بھی دباؤ بڑھانے کی پوزیشن میں ہوتی۔
'کریک ڈاؤن بہت سخت ہوا'
مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ جب پی ٹی آئی کے کارکن ڈی چوک پہنچے تو وہاں کھانے پینے اور رہائش سمیت کسی چیز کا کوئی انتظام نہیں تھا جب کہ دوسری جانب پولیس اور رینجرز کے دستے تازہ دم تھے۔ پولیس اور رینجرز کے لیے ایسے لوگوں کو پسپا کرنا مشکل نہیں تھا۔
احتجاج کی کوریج کرنے والے تجزیہ کار اور کالم نویس حامد میر کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے خلاف بہت سخت کریک ڈاؤن ہوا۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بلیو ایریا اور ملحقہ علاقوں کی لائٹیں بجھا کر کارروائی کی گئی، ایسے میں کسی کے لیے وہاں مزاحمت کرنا بہت مشکل تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے کارکن تو کافی دیر کھڑے رہے لیکن جب لیڈر شپ ہی چلی گئی تو وہ کیا کرتے۔
پی ٹی آئی مطالبے سے کیوں پیچھے ہٹی؟
واضح رہے کہ احتجاج شروع کرنے سے قبل پی ٹی آئی قیادت اور دورانِ احتجاج بشرٰی بی بی مسلسل یہ کہتی رہیں کہ وہ عمران خان کی رہائی تک ڈی چوک میں دھرنا دیں گی اور اگر کسی نے اُن کا ساتھ نہ بھی دیا تو وہ اکیلی ہی وہاں رہیں گی۔
چوہدری غلام حسین سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے اعلان تو دھرنا دینے کا کیا تھا، لیکن جب وہاں پر گولیاں چلنا شروع ہوئیں تو وہاں سے لوگ نکلنا شروع ہو گئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ گولیوں کے آگے تو کوئی جتنا بھی بہادر ہو پیچھے ہٹ جاتا ہے۔
بشرٰی بی بی پہلے ہی سیاسی امتحان میں ناکام ہوئیں؟
خیال رہے کہ بشریٰ بی بی پی ٹی آئی کے احتجاج کی فائنل کال کے موقع پر نہ صرف منظرِ عام پر آئیں بلکہ اُنہوں نے پی ٹی آئی کے احتجاجی جلوس کی مشترکہ قیادت بھی کی۔
اُنہوں نے مختلف مقامات پر کارکنوں سے خطاب بھی کیا اور اُنہیں ڈٹے رہنے کی ہدایت کرتی رہیں۔
حامد میر کہتے ہیں کہ اگر بشریٰ بی بی ڈی چوک سے نہ جاتیں تو کارکن بھی مزاحمت کرتے اور یوں دلبرداشتہ ہو کر واپس نہ آتے۔
چوہدری غلام حسین کہتے ہیں کہ بشریٰ بی بی کے اس طرح سیاست میں آنے سے مجموعی طور پر عمران خان کو نقصان ہوا۔
اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان پر کرپشن کے الزامات بھی بشریٰ بی بی کی وجہ سے لگے جس کا عمران خان کو سیاسی نقصان ہوا۔
مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ بشریٰ بی بی ہی ڈی چوک جانے پر اصرار کر رہی تھیں، لیکن جب حالات مشکل ہوئے تو وہ وہاں سے چلی گئیں جس سے اُن کی لیڈرشپ کی صلاحیت بھی مشکوک ہوئی ہے۔
خیال رہے کہ عمران خان شروع سے کہتے رہے ہیں کہ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور وہ مکمل طور پر ایک گھریلو خاتون ہیں۔ لیکن تحریکِ انصاف کے احتجاج کی قیادت کرنے پر حکومتی وزرا عمران خان کے ان بیانات کا حوالہ دے کر تحریکِ انصاف کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
'پی ٹی آئی احتجاج کی ناکامی ایک دوسرے پر ڈال رہی ہے'
پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اور رکنِ قومی اسمبلی شیر افضل مروت کے مطابق وہ اور علی امین گنڈا پور ڈی چوک جا کر احتجاج کرنے کے حق میں نہیں تھے۔
نجی ٹی وی چینل 'نیو نیوز' سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ وہ اور علی امین چاہتے تھے کہ پی ٹی آئی کارکن کلثوم اسپتال سے آگے نہ جائیں لیکن پی ٹی آئی کارکن ڈی چوک جانے پر بضد تھے۔
اِسی طرح پی ٹی آئی رہنما شوکت یوسف زئی کہتے ہیں کہ علی امین کے علاوہ کوئی لیڈر سامنے نہیں آیا۔ لیڈر شپ میں منصوبہ بندی، مشاورت اور رابطہ کاری کا فقدان تھا۔
'جیو نیوز' سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے مذاکرات کا کہا تو کیوں نہیں کیے گئے؟ حکومت کی مذاکرات کی پیش کش پر مشاورت کیوں نہیں کی گئی؟
تجزیہ کار حامد میر کی رائے میں پی ٹی آئی کے جو لوگ ناکامی کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں اُس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ قیادت کی ناکامی تو ہے لیکن یہ عمران خان کے چاہنے والوں کی ایک طرح سے کامیابی بھی ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ کارکنوں کا ڈی چوک تک پہنچ جانا ریاستِ پاکستان اور اُس حکومت کی ناکامی ہے جو آٹھ فروری کے بعد وجود میں آئی ہے۔ اگر پی ٹی آئی کا کارکن دوبارہ آ گیا تو حکومت اور ریاست کیا کرے گی۔
تجزیہ کار چوہدری غلام حسین کی رائے میں پی ٹی آئی کی اکثریت اپنے احتجاج کی ناکامی بشرٰی بی بی پر ٖڈال رہی ہے۔
پی ٹی آئی کی سیاست پر کیا اثر پڑے گا؟
تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی کی رائے میں مسلسل احتجاجی جلسوں میں ناکامی پر پی ٹی آئی کو دھچکا لگے گا۔ اب اُنہیں اپنی احتجاجی سیاست پر غور کرنا پڑے گا۔
حامد میر کے بقول پی ٹی آئی کے احتجاج میں پورے پاکستان سے لوگ آئے ہوئے تھے۔ کسی بھی کارکن کے پاس ماسوائے غلیل کے کوئی اسلحہ نہیں دیکھا اور بہت عرصے کے بعد اُنہوں نے پرجوش کارکنوں کو دیکھا ہے۔
اُن کے بقول جب پی ٹی آئی کے کارکن واپس جا رہے تھے تو بعض جذباتی کارکنوں نے تو یہ تک کہا کہ وہ دوبارہ بندوقوں کے ساتھ آئیں گے۔
حامد میر نے سیاسی تاریخ کا حوالہ دیتے کہا کہ جب بھی سیاسی عمل اور جمہوری ادارے ناکام ہو جاتے ہیں تو اُس کے بعد انتہا پسندی فروغ پاتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ماضی میں سیاسی جماعتوں اور کارکنوں پر تشدد کے اچھے نتائج نہیں نکلے بلکہ اس سے معاشرے میں انتہا پسندی فروغ پاتی ہے۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ جب 1974 میں سپریم کورٹ نے نیشنل عوام پارٹی (نیپ) پر پابندی لگائی تو اس کے بھی ملک پر منفی اثرات پڑے تھے۔
اِسی طرح جنرل ضیاء الحق کے دور میں سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگائی گئیں تو 'الذوالفقار' جیسی نتظیمیں وجود میں آئیں۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ یہ نہ تو حکومت کی فتح ہے اور نہ ہی تحریکِ انصاف کی ناکامی یہ ریاستِ پاکستان کی ناکامی ہے۔