جنوبی لبنان سے اسرائیل پر بھاری تعداد میں راکٹ برسائے جانے کے بعد جمعے کے روز اسرائیل نےلبنان پر فضائی حملے اور غزہ کی پٹی پر بمباری کی۔ یروشلم کے انتہائی حساس علاقے میں کئی روز کے تشدد کے بعد ایک وسیع تر تصادم کے خدشات پیدا ہو گئے تھے تاہم دن کے پچھلے پہر ایسی علامات ظاہر ہوئیں کہ دونوں ہی فریق یہ کوشش کر رہے ہیں کہ دشمنی اور تصادم کو قابو سے باہر نہ ہونے دیا جائے۔
اسرائیل کی شمالی اور جنوبی سرحدوں پر لڑائی، صبح سویرے تھم گئی اور الا قصی مسجد میں دوپہر کی نماز پر امن طور سے ادا ہو گئی۔
لیکن مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے میں چند گھنٹے بعد ہی فلسطینیوں کی فائرنگ کے نتیجے میں ایک اسرائیلی بستی کے قریب دو خواتین ہلاک ہو گئیں۔ جو کہ صورت حال کی سنگینی کی ایک افسوس ناک یاد دہانی تھی۔
SEE ALSO: مسجد اقصی میں فلسطینیوں پر تشدد کی عالمی سطح پر مذمت، حماس کے راکٹ حملےاے پی کی رپورٹ کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی حملوں کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا تھا کہ ایرانی حمایت یافتہ شیعہ گروپ حزب اللہ کو اس تصادم میں کود نے کا کوئی موقع دینے سے گریز کیا جا سکے، جسے اسرائیل اپنے لیے انتہائی فوری خطرہ سمجھتا ہے۔
اسی طرح غزہ کی پٹی کے علاقے میں اسرائیلی فوج نے بقول اس کے، ہتھیار بنانے کی جگہوں اور ان سرنگوں پر بمباری کی جن کا تعلق حماس سے تھا۔
اے پی کے مطابق یہ ارض مقدس میں موسم بہار کی ایک تکلیف دہ اور افسوس ناک روایت بن گئی ہے۔
اسرائیلی پولیس ان فلسطینیوں پر آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں فائر کرتی ہے جو کرہ ارض پر واقع انتہائی مقدس متنازعہ علاقوں میں ایک میں سے ان کے خلاف پتھر اور پٹاخے استعمال کرتے ہیں۔ اور پھر تشدد اسرائیل اور مقبوضہ مغربی کنارے تک پھیل جاتا ہے۔ جس کے بعد انتہا پسند غزہ اور لبنان تک سے راکٹ چلا کر اس کا جواب دیتے ہیں اور تشدد کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
یروشلم مسلمانوں اور یہودیوں، دونوں کے لیے مقدس ہے۔ یہ اسلام میں تیسری مقدس جگہ ہے جب کہ یہودیوں کے لیے مقدس ترین مقام ہے۔
فلسطینی اس ارض مقدس کو اپنے وطن کی آخری باقیات کے طور پر دیکھتے ہیں جو اسرائیل کے کنٹرول میں نہیں ہے اور انہیں خوف ہے کہ اسرائیل آخر کار ایک روز اس پر قبضہ کرنے یا اسے تقسیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے
اسرائیلی عہدیدار کہتے ہیں کہ وہ اس مقام پر 1967 سے قائم اس صورت حال کو بدلنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
یروشلم میں جب تشدد ہوتا ہے تو اس کے اثرات پورے خطے میں محسوس کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ مسلمان الاقصی پر ہو نے والے تشدد کو اپنے عقیدے پر ایک حملہ سمجھتے ہیں اور یوں پورے خطے میں سیاسی دھڑوں اور مسلح گروپوں کو اپنی آواز بلند کرنے کے لیے ایک مضبوط نعرہ مل جاتا ہے جو اس سب کے لیے نہ صرف اسرائیل کو بلکہ بڑھتی ہوئی تعداد میں ان عرب مسلم حکمرانوں کو بھی مورد الزام ٹھیراتے ہیں، جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ امن قائم کیا ہے۔
فلسطینی جنگجو گروپ حماس، جس کی غزہ پر حکومت ہے، کئی بار نئے انتفادہ کے لیے کہہ چکا ہے۔یعنی ویسی ہی شورش کے لیے جیسی سن 2000 میں ایک اسرائیلی سیاست داں کےالاقصی کے دورے کے نتیجے میں شروع ہوئی تھی۔
اس ہفتے بھی فلسطینی اسلامک جہاد گروپ اور لبنان میں موجود فلسطینی جنگجوؤں نے نمازیوں کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کے لیے، اسرائیل پر راکٹ فائر کیے۔ مقبوضہ مغربی کنارے اور اسرائیل کے اندر آباد عربوں نے احتجاج کیا۔ اور اس طرح یہ تشدد پورے خطے کو متاثر کرتا ہے اور مستقبل قریب یا بعید میں اس کا کوئی حل نظر نہیں آتا جس کے لیے عشروں سے کوششوں کا سلسلہ جاری ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)