پاکستان کو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض پروگرام کی بحالی میں مشکلات کا سامنا ہے اور ایسے میں حکومت معاشی مدد کے لیے دوست ممالک کی طرف دیکھ رہی ہے۔
دوست ممالک سے معاشی مدد کی کوششوں کے پیشِ نظر وزیرِ اعظم شہباز شریف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے بعد اب قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچے ہیں۔
شہباز شریف کے ساتھ فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے بھی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دورے کیے ہیں جس کے بعد شہباز شریف نے اعلان کیا تھا کہ دوست ممالک نے پاکستان کو معاشی مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔
پاکستان کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت ایک ایسے وقت میں یہ دورے کررہے ہیں جب اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف نے مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے اسلام آباد کو دوست ممالک سے یقین دہانی لینے کا کہا ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کہہ چکے ہیں کہ 'دوست ملک' بھی پاکستان سے تعاون سے پہلے معاہدے کی تصدیق کا انتظار کر رہے ہیں البتہ آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے شرائط بہت سخت اور نا مناسب ہیں۔
سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر رہنے والے وائس ایڈمرل (ر) ہشام بن صدیق کہتے ہیں کہ جن ممالک کے ساتھ پاکستان کی اسٹریٹیجک شراکت داری ہے وہ پہلے بھی ہماری مدد کرتے رہے ہیں اور اب بھی کریں گے۔
SEE ALSO: شرحِ سود میں اضافے سے کون متاثر ہوگا؟انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی بحالی سے قبل دوست ممالک سے مالی مدد کے حصول کی یقین دہانی کی شرط غیر مناسب ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ عام طور پر آئی ایم ایف پہلے اپنے پروگرام کا آغاز کرتا ہے جس کے بعد ہی مزید مالی ضرورت کے لیے دوست ممالک سے بات چیت کی جاتی ہے۔
ہشام بن صدیق کا کہنا ہے کہ پاکستان کو قرض کے حصول سے زیادہ پرانے قرضوں کی تجدید کرانا ہے، جس کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ ساتھ دوست ممالک سے مدد لینا ہوگی۔
'پاکستان عملی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے'
مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں پاکستان کے سفیر رہنے والے اور سفیروں کی تنظیم ’ایسوسی ایشن آف ریٹائرڈ ایمبسڈرز آف پاکستان‘ کے صدر ثنا اللہ کہتے ہیں کہ دوست ممالک کے ساتھ تعلقات ماضی کی طرح گہرے نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے پاکستان کو معاشی مدد کی فراہمی کا مثبت جواب دیا ہے۔ ان کے بقول اس میں ہچکچاہٹ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں تاخیر ہے۔
SEE ALSO: چین کا پاکستان کو قرضوں میں رعایت کے سوال کا جواب دینے سے گریزانہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف بھی اپنی شرائط سخت سے سخت کرتا جارہا ہے کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ پاکستان کے دوست ممالک نے مالی مدد کی فراہمی کو آئی ایم ایف قرض پروگرام کی بحالی سے مشروط کیا ہے۔
ثناء اللہ کہتے ہیں کہ اندرونی مسائل نے اس صورتِ حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے اور پاکستان عملی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے جس کا اظہار وزیر دفاع نے بھی کیا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کو زرِ مبادلہ کے کم ہوتے ہوئے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے فوری طور پر مالی مدد کی ضرورت ہے۔
وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ ماہ دیوالیہ ہونے کے خطرے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ چند دن میں پاکستان کو سعودی عرب سے مالی معاونت مل جائے گی۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بھی ابو ظہبی کے دورے کے بعد اعلان کیا تھا کہ یو اے ای کی قیادت نے دو ارب ڈالر فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ تاہم اعلانات کے باوجود سعودی عرب اور یو اے ای سے مالیاتی مدد کا حصول تاحال ممکن نہیں ہوسکا ہے۔
SEE ALSO: آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان بات آگے کیوں نہیں بڑھ رہی؟ایسے میں اسلام آباد کے دیرینہ دوست ملک چین نے گزشتہ ہفتے پاکستان کے لیے 70 کروڑ ڈالر فراہم کیے ہیں۔
چین کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماؤننگ نے کہا تھا کہ بیجنگ اسلام آباد کی اقتصادی اور مالی تعاون کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی اقتصادی استحکام برقرار رکھے گا۔
انہوں نے قرض فراہم کرنے والے ممالک اور اداروں کی اجارہ داری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک کی ابتر معاشی صورتِ حال کی ذمے داری ایک ترقی یافتہ ملک کی مالیاتی پالیسی کی وجہ سے ہے۔
دوسری طرف امریکہ نے پاکستان پر چین اور دیگر ممالک کے واجب الادا قرضوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
گزشتہ ماہ اسلام آباد کے دورے پر آئے ہوئے امریکی محکمۂ خارجہ کے قونصلر ڈیرک شولے نے کہا تھا کہ امریکہ کو پاکستان پر چین اور دوسرے ممالک کے واجب الادا قرضوں پر تشویش ہے۔
SEE ALSO: آئی ایم ایف کا پاکستان کے امیر طبقے سے ٹیکس وصولی اور سبسڈی ختم کرنے کا مطالبہن کے بقول چین اور چینی بینکوں سے حاصل کیے گئے قرض اب پاکستان کے ذمے واجب الادا مجموعی قرض کا ایک تہائی ہو چکے ہیں۔
'آئی ایم ایف کی شرائط میں سیاسی عوامل بھی شامل ہیں'
سابق سفیرہشام بن صدیق کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی جانب سے لگائی گئی شرائط کی وجوہات میں کچھ سیاسی عوامل بھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ کسی محاذ کا حصہ نہ بنے اور دو حریف ملکوں کو ساتھ لے کہ چلنا ہی اچھی سفارت کاری ہوگی۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان چاہتا ہے کہ خطے کے حالات میں اپنے دیرینہ شراکت داروں کے ساتھ تعلقات کو متاثر کیے بغیر آگے بڑھے اور اسٹریٹجک شراکت دار دوست ملک پہلی ترجیح ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مالیاتی خسارہ 30 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے جس کے لیے مکمل طور پر دوست ممالک پر انحصار کرنا درست نہیں ہے اور حکومت کو خود سے بھی کچھ مالیاتی نظم و نسق لانا ہوگا۔
SEE ALSO: شرحِ سود میں اضافے سے کون متاثر ہوگا؟ان کا مزید کہنا ہے کہ دوست ممالک توقع کرتے ہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف کی مدد سے معاشی مسائل سے نکلنے کی حکمتِ عملی بنائے جس میں وہ ضرور مدد کریں گے۔
سابق سفیر ثناء اللہ کہتے ہیں کہ ماضی میں پاکستان کی مدد کرنے والے دوست ممالک کے اپنے عزائم بہت پھیل چکے ہیں اور سعودی عرب و یو اے ای اپنے شروع کردہ بڑے بڑے منصوبوں پر توجہ دے رہے ہیں۔
موڈیز اور فچ کے مطابق پاکستان پر جون تک سات ارب ڈالر کا قرض واجب الادا ہے، جب کہ اگلے دو برس میں پاکستان کے ذمے واجب الادہ 50 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ ہے، جن میں چین اور چینی کمرشل بینکوں کو واپس کیا جانے والا قرض بھی شامل ہے۔