امریکہ: کرونا وبا کے دوران قتل کی وارداتوں میں 30 فی صد  اضافہ

ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور میں پولیس نے ایک مشتبہ شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ جائے وقوعہ کو پولیس نے عام لوگوں کے لیے بند کر دیا ہے۔ 13 جولائی 2021

ایف بی آئی کی  جانب سے ہتھیاروں کی خرید سے متعلق کی جانے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ 2020 کے ابتدائی عرصے میں جب عالمگیر وبا کووڈ۔19 زور پکڑ رہی تھی، ہتھیاروں کی فروخت میں نمایاں اضافہ ہو گیا تھا۔

کرونا وائرس کے وبائی مرض کےپہلے سال کے دوران امریکہ میں قتل کے واقعات میں تقریباً 30 فی صد اضافہ ہوا، یہ رجحان شہروں اور دیہی علاقوں، ری پبلیکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کی جانب جھکاؤ رکھنے والی ریاستوں میں ہر جگہ دیکھا گیا۔

یونیورسٹی آف نیبراسکا اوماہا میں جرائم اور فوجداری انصاف کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر جسٹن نکس کے مطابق ہتھیار رکھنے کے رجحان میں اضافے، عالمگیروبا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تناؤ اور پولیس پر عوام کےاعتماد میں کمی نے ملک بھر میں قتل عام کے واقعات میں اضافہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

نکس کہتے ہیں کہ "ہمارے پاس شواہد موجود ہیں کہ عوامی مقامات پر ہتھیار لے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔۔۔ ہم جانتے ہیں کہ کرونا کی وبا نے،اپنے تمام تر تناؤ اور اس کے پھیلاؤ سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورت حال کے نتیجے میں معاشی بے چینی میں اضافے نے ممکنہ طور پر ایک کردار ادا کیاہے"۔

نکس کا مزید کہنا ہے کہ "اور پھر، آخر کار، جارج فلائیڈ کے قتل اور اس کے بعد ہونے والے مظاہروں نے پولیس کی قانونی حیثیت کے بحران کو جنم دیا۔"

پولیس کی حراست میں جارج فرائیڈ کی ہلاکت کے خلاف ملک گیر مظاہرے ہوئے۔

25 مئی 2020 کو، ایک 46 سالہ سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ ، منی سوٹا میں ایک سفید فام پولیس افسر کے ہاتھوں ہلاک ہو گیا تھا، جس نے پولیس کی سخت گیری کے خلاف ملک گیر احتجاج کو بھڑکا دیا۔

اس سے قبل ہونے والی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد عوام کی توجہ اس جانب مبذول ہو جاتی ہے جس سے پولیس کے اہل کار جرائم سے نمٹنے کی اپنی کوششوں میں کمی کر دیتے ہیں جو جرائم میں اضافے کا موجب بنتا ہے۔

نکس کہتے ہیں کہ " یہ خوف کہ سوشل میڈیا پر یا خبروں میں رگیدے جانے والے وہ اگلے اہل کار بن سکتے ہیں، پولیس کو جزوی طور پر سست کر دیتا ہے۔"

نکس کے مطابق"پولیس اہل کاروں میں پیدا ہونے والا یہ خوف کہ، 'اگر میں نے قانونی طور پر بھی طاقت کا استعمال کیا، یہاں تک کہ اگر میں نے کسی شخص کو روکا، اور یہ چیز طاقت کے استعمال کے واقعے میں بدل گئی ، چاہے میرا قدام قانونی طور پر بالکل درست بھی تھا، تب بھی میں اپنے آپ کو وائرل ہونے والی ویڈیو کا اگلا ہدف بنتے ہوئے دیکھ سکتا ہوں۔''

SEE ALSO: امریکہ: فائرنگ کے 2 واقعات میں 29 افراد ہلاک، 40 سے زائد زخمی

ان واقعات کا ایک اثر یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی جرم وقوع پذیر ہونے کی صورت میں عوام کی جانب سے پولیس کو فون کر کے اطلاع دینے کے امکان میں اس خدشے کی بنا پر کمی آ سکتی ہے کہ ان کے اس اچھے اقدام کے نتیجے میں کچھ برا نہ ہو جائے۔

نکس کہتے ہیں کہ فون کرنے والا شخص یہ سوچتا ہے کہ 'اگر میں پولیس کو کال کرتا ہوں اور وہ آ کر جرم کرنے والے شخص کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں یا اس پر ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کرتے ہیں، تو مجھے اس طرح کے کام میں حصہ نہیں ڈالنا چاہیے، جسے میں ایک مسئلہ سمجھتا ہوں، اس لیے میرے لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ میں 911 پر کال ہی نہ کروں۔''

نکس کہتے ہیں، "اگر لوگ کسی جرم کا ہدف بننے کی اطلاع نہیں دیتے ہیں یا دوسرے لوگوں کو مجرمانہ سرگرمیوں کا شکار ہوتے ہوئے دیکھ کر رپورٹ نہیں کرتے، تو پھر بہت سے واقعات پر پولیس کا دھیان نہیں جائے گا۔"

طبی ماہر نفسیات ڈاکٹر ماریہ ایسپینولا، جیلوں اور بچوں کے حراستی مراکز میں کام کر چکی ہیں اوروہ پرتشدد رجحانات رکھنے والے افراد کے بارے میں بھی جانتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ کچھ لوگ دباؤ میں آ کر زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کر سکتے ہیں۔

ایسپینولا کا کہنا ہے کہ " جن لوگوں نے اس وقت گھر میں یا اپنی کمیونیٹیز میں تشدد کا مشاہدہ کیا تھا جب وہ بڑے ہو رہے تھے، اور جن میں جینیاتی طور پر جارحیت کا رجحان ہو، وہ تناؤ کی صورت حال میں تشدد کی جانب مائل ہو سکتے ہیں۔"

Your browser doesn’t support HTML5

امریکہ میں گن وائلنس کا خاتمہ کتنا مشکل، کتنا آسان؟

ایسپینولا یونیورسٹی آف سنسناٹی کالج آف میڈیسن میں شعبہ نفسیات اور طرز عمل میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب انسان کو کسی وبائی مرض کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مایوسی کی حالت میں کتنے لوگوں کا رویہ دوسروں کی جانب جارحانہ شکل اختیار کر لیتا ہے"۔

ایف بی آئی کی جانب سے ہتھیاروں کی خرید سے متعلق کی جانے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ 2020 کے ابتدائی عرصے میں جب عالمگیر وبا کووڈ۔19 زور پکڑ رہی تھی، ہتھیاروں کی فروخت میں نمایاں اضافہ ہو گیا تھا۔

ایف بی آئی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مارچ 2021 کے ایک ہفتے کے دوران جب وبا اپنے عروج پر تھی، 12 لاکھ 18 ہزار سے زیادہ آتشیں ہتھیار خریدے گئے۔ رپورٹ کے مطابق 1998 کے بعد سے، جب سے ہتھیاروں کی خرید و فروخت کا ریکارڈ رکھا جانے لگا ہے، یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔

ایک ایسے ملک میں تشدد کے واقعات روکنے کے لیے ہتھیاروں پر کنڑول کا معاملہ آسان نہیں ہے جو ہتھیار رکھنے کی آزادی پر بحث میں الجھا ہوا ہو۔ تاہم 19 ریاستوں نے ایسے قوانین منظور کیے ہیں جو پولیس یا خاندان کے افراد کی جانب سے عدالت میں درخواست دائر کرنے کی اجازت دیتے ہیں کہ ایسے شخص کے ہتھیار رکھنے پر عارضی پابندی لگا دی جائے جوخود اپنے یا دوسروں کے لیے خطرہ بن سکتا ہو۔اس قانون کو ای آرپی او کہتے ہیں اور جب تک مذکورہ شخص پر اس قانون کا اطلاق جاری رہتا ہے، اس کے ہتھیار خریدنے پر پابندی ہوتی ہے۔

امریکہ میں ہتھیار رکھنے کی آزادی ہے اور لوگوں کے پاس بڑی تعداد میں ہتھیار موجود ہیں۔

جانز ہاپکنز سینٹر برائے انجری ریسرچ اینڈ پالیسی کے ڈائریکٹر شینن فراٹرولی کہتے ہیں کہ ہم نے تقریباً نصف ریاستوں کو ایک نئی قسم کی پالیسی اپناتے ہوئے دیکھا ہے ہتھیاروں کی خریداری اور ہتھیار اپنے قبضے میں رکھنے پر عارضی پابندیوں کی اجازت دیتے ہیں، جو ایک غیر معمولی بات ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ہتھیار رکھنے کے نتیجے میں تشدد کی روک تھام سے متعلق معقول پالیسیوں پر متفق ہو سکتے ہیں"۔

پولیس کی جانب سے طاقت کے غیر ضروری استعمال کے واقعات کے بعد کچھ حلقوں کی جانب سے پولیس کا ادارہ ختم یا محدود کرنے کے مطالبات سامنے آ چکے ہیں۔ لیکن امریکیوں کی اکثریت پولیس کا محکمہ ختم کرنے کے خلاف ہے۔ تاہم ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جن کا کہنا ہے کہ پولیس کا آدھا بجٹ کم کرکے ان فنڈز کو سماجی بہبود کے پروگراموں کی جانب منتقل کر دیا جائے۔

دوسری جانب نکس کہتے ہیں کہ "ایک ایسے معاشرے میں جہاں ہتھیاروں کی بھرمار ہو اور تشدد عام ہو، وہاں پولیس کا ہونا ضروری ہےاور اس پر سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اچھے تربیت یافتہ پولیس اہل کاروں کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے تھکے ماندے اور کمزور پولیس اہل کار نہیں چاہیئں جو ایسی حالت میں اپنے اختیارات کا استعمال کر رہے ہوں، جب ان کی نیند بھی پوری نہ ہوئی ہو۔ہمیں پولیس اہل کاروں پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں کمیونٹی کی ان تنظیموں پر بھی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جو تشدد کی روک تھام کے لیے کام کرتی ہیں"۔