|
سرینگر__ لوک سبھا الیکشن میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ووٹنگ کی بلند سطح دیکھی گئی ہے جب کہ دہائیوں بعد پہلی مرتبہ ایسا ہورہا ہے کہ علیحدگی پسند تنظیموں نے انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل نہیں کی ہے۔
پیر کو سات مراحل پر مشتمل بھارت کے لوک سبھا الیکشن کے پانچویں مرحلے میں کشمیر کے بارہمولہ حلقے میں ووٹ ڈالے گئے۔
اس سے قبل چوتھے مرحلے میں 13 مئی کو جن حلقوں میں ووٹ ڈالے گیے تھے ان میں بھارت کے زیرِا نتظام جموں وکشمیر کا سرینگر کا حلقہ شامل تھا جبکہ پہلے اور دوسرے مرحلے میں جموں و کشمیر کے ادھمپور اور جموں کے حلقوں میں پولنگ ہوئی تھی۔
لیکن سری نگر کا انتخابی حلقہ چوں کہ مسلم اکثریتی وادیٔ کشمیر میں واقع ہے اس لیے یہاں ماضی میں کرائے گئے انتخابات کے مقابلے میں رائے دہندگان کی ایک بڑی تعداد کا ووٹ ڈالنا عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں آگیا۔
کشمیر میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں اور عسکریت پسندوں کی جانب سے گزشتہ 35 برس میں جموں وکشمیر میں ہونے والے ہر صوبائی اور لوک سبھا انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل کی جاتی تھی۔
بائیکات کے لیے ان کی دلیل یہ تھی کہ وہ جموں و کشمیر میں بھارت کی حکمرانی کو تسلیم نہیں کرتے ہیں اور ان کے بقول بھارت ایک غاصب اور قابض ملک ہے اس لیے بھارتی آئین کے تحت کرایا گیا کوئی بھی انتخابی عمل ان کے لیے قابلِ قبول نہیں۔
ان اپیلوں کے نتیجے میں 1989 کے بعد سے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں جتنے بھی انتخابات کرائے گیے ان میں لوگوں کی بہت کم تعداد نے حصہ لیا۔ یہ وہ دور تھا جب کشمیر میں مسلح شورش کا آغاز بھی ہوا تھا۔
کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں کشمیر کے لوگوں کی انتخابی عمل میں عدم دل چسپی کے اسباب میں علحیدگی پسند عسکریت پسندوں کا خوف اور بعض حلقوں میں ان سے پائی جانے والی ہمدردی دونوں ہی شامل تھے۔
لیکن اس مرتبہ نہ تو جموں و کشمیر میں سرگرم کسی عسکری تنظیم نے الیکشن بائیکاٹ کی اپیل کی ہے اور نہ استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کسی سیاسی جماعت کا ایسا کوئی بیان سامنے آیا ہے۔
’الیکشن نئے ماحول میں ہو رہے ہیں‘
کشمیر کے سرکردہ مذہبی اور سیاسی رہنما میرواعظ محمد عمر فاروق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پانچ اگست 2019 کو بھارتی حکومت کے اقدامات کے نتیجے میں جموں و کشمیر میں پیدا ہونے والی سیاسی صورتِ حال میں کسی الیکشن کے لیے بائیکاٹ کی اپیل غیر متعلقہ بات ہوگئی ہے۔
بھارتی حکومت نے اگست 2019 میں جموں وکشمیر کو نیم خود مختاری دلانے والی آئینِ ہند کی دفعہ 370 اور ایک ذیلی دفعہ 35 اے کو تبدیل کردیا تھا جس کے تحت ریاست کے حقیقی باشندوں کو مختلف مراعات حاصل تھیں۔
اس آئینی تبدیلی کے ساتھ ہی کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقوں میں بدل دیا تھا۔
استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد حریت کانفرنس (میرواعظ) کے چیئرمین میرواعظ عمر کے مطابق بھارتی حکومت نے آئین میں ترمیم کے بعدجموں و کشمیر میں سیاسی سرگرمیوں اور آزادی اظہارِ رائے پر کئی طرح کی قدغنیں لگائی تھیں اور آج بھی ہزاروں کی تعداد میں سیاسی کارکن جیلوں میں بند ہیں۔
ان کا کہنا تھا:’’ہم کسی جمہوری عمل کے خلاف نہ تھے اور نہ ہیں لیکن ہمارا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ جموں و کشمیر سمیت پورے جنوبی ایشیا میں پائیدار امن یقینی بنانے کے لیے مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل ڈھونڈنا ناگزیر ہے۔‘‘
SEE ALSO: راہل گاندھی اسمرتی ایرانی کے خلاف الیکشن کیوں نہیں لڑ رہے؟یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبۂ سیاست کے سابق پروفیسر اور تجزیہ کا نور احمد بابا کا کہنا ہے کہ پانچ اگست 2019کے حکومتی اقدامات کے بعد کشمیر کی علحیدگی پسند تنظیمیں تقریباً غیر فعال ہوکر رہ گئی ہیں اور بھارتی پارلیمان کے انتخابات ایک نئے ماحول میں ہورہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی جمہوری عمل برا نہیں لیکن اگر کوئی اس عمل سے دور رہتا ہے تو یہ بھی نہ غیر قانونی ہے اور نہ ہی غیر آئینی۔
انہوں نے کہا کہ علحیدگی پسندوں کی طرف سے انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیلیں ایک الگ پس منظر اور ایک الگ مقصد کے تحت جاری کی جاتی تھیں۔ ظاہر ہے انہیں بھی اس بات کا ادراک ہے کہ جموں و کشمیر کی سیاسی صورتِ حال بدل چکی ہے۔
تاہم کُل جماعتی حریت کانفرنس میں شامل جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کے سربراہ سید سلیم گیلانی کی رائے ہے کہ انتخابات کا بائیکاٹ کرنا شاید ایک غیر دانش مندانہ عمل تھا۔
ان کے مطابق انتخابی عمل کو 'شجرِ ممنوعہ' قرار دینا تاریخی غلطی تھی۔ سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔ بد قسمتی سے ہم نے ممکنات پر کبھی توجہ ہی نہیں دی اور جہلم کا بیشمار پانی بہتا چلا گیا۔
1989 کے بعد سب سے زیادہ شرح
جموں و کشمیر کے چیف الیکٹورل آفیسر پندورنگ کے پولے کے مطابق 13مئی کو سرینگر پارلیمانی حلقے میں 38 فی صد ووٹ ڈالے گئے جو 1996 کے اسمبلی انتخابات کو چھوڑ کر 1989 کے بعد ووٹنگ کی سب سے زیادہ شرح ہے۔
یہ حلقہ بڈگام، گاندربل، پلوامہ اور شوپیان اضلاع کے 19 صوبائی اسمبلی حلقوں میں پھیلا ہوا ہے۔
SEE ALSO: نریندر مودی نے ہندوتوا کے نظریے کو بھارتی سیاست کا محور کیسے بنایا؟انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں 1989میں عسکریت پسندی کے آغاز کے بعد کرائے گیے انتخابات کےدوراں کئی پولنگ مراکز پر ایک بھی ووٹ نہیں ڈالا گیا تھا۔ اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا۔ لوگوں نے پولنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور کہیں بھی کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا۔
بھارت کے وزیرِ داخلہ امت شاہ نے بھی ایک بیان میں سرینگر کے پارلیمانی حلقے میں ووٹنگ کی زیادہ شرح کو دفعہ 370 کی منسوخی کی کامیابی کا ثبوت قرار دیا تھا۔
تاہم پلوامہ کے ایک شہری بشیر احمد راتھر کا کہنا ہے کہ آج کے ووٹ اور اس سے پہلے ڈالے گیے ووٹ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ آج کا ووٹ آرٹیکل 370 اور 35 اے کی غیر قانونی اور غیر آئینی منسوخی کا ردِ عمل ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چوں کہ گزشتہ 30 سے زائد برسوں میں جموں و کشمیر میں ہونے والا یہ غالباً پہلا انتخاب ہے جس کا استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں یا علحیدگی پسند عسکریت پسندوں نے بائیکاٹ نہیں کیا ہے۔
اس لیے نئے سیاسی منظر نامے میں عام ووٹر کسی بے یقینی میں کسی کشمکش کا شکار نہیں ہے۔