کرغزستان سے واپس آنے والے اکثر طلبہ کا کہنا ہے کہ ان کو ان کے فلیٹ یا ہاسٹل مالکان نے ایئرپورٹ تک پہنچنے میں مدد کی۔ وہ طلبہ بھی پاکستان واپس آ گئے ہیں جن کی تعلیم مکمل ہو چکی ہے اور وہ اپنی ڈگری کے حصول کے لیے وہاں موجود تھے۔ بعض طلبہ پاکستان کے سفارتی عملے کی جانب سے کوئی مدد نہ کرنے پر تنقید بھی کررہے ہیں۔ |
’’میں نے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لیٹ کر اپنے فلیٹ سے ایئرپورٹ تک کا سفر کیا۔ میں بہت زیادہ خوف زدہ ہوا تھا۔ مجھے میرے فلیٹ مالک نے اپنی کالی شیشوں والی گاڑی میں انسانی ہمدردی کے تحت ایئر پورٹ پہنچایا۔ 13 مئی سے پاکستان پہنچنے تک میں سویا نہیں تھا۔ بشکیک میں مقامی افراد کی جانب سے پیغام پھیلایا جا رہا ہے کہ کوئی بھی سانولے رنگ کا فرد نظر آئے تو اُسے گولی مار دو۔‘‘
یہ الفاظ ہیں 27 سالہ عمر عثمان کے جو ہفتے کی شب کرغستان سے پاکستانی طلبہ کو واپس لانے والی پہلی پرواز پر لاہور پہنچے ہیں۔
عمر عثمان انٹرنیشنل یونیوسٹی آف کرغستان میں میڈیکل کی تعلیم مکمل کر چکےہیں۔ اُن کا تعلق پاکستان کے ضلع جھنگ سے ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ کرغستان کے شہر بشکیک میں غیر ملکی طلبہ کے لیے اِس وقت امن و امان کی صورتِ حال بہت زیادہ خراب ہے جس کے باعث اُنہیں اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑ کر جان بچانے کے خاطر واپس لوٹنا پڑا۔
عمر عثمان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی ڈگری لینے کے لیے کرغستان گئے تھے۔ اِسی دوران بشکیک میں صورتِ حال خراب ہو گئی اور یونیورسٹی، لائبریری اور دیگر شعبۂ جات بند ہونا شروع ہو گئے۔
واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ کسی پاکستانی کا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں ہوا تھا۔ اصل میں مصر سے تعلق رکھنے والے کچھ طلبہ کا بشکیک کے مقامی باشندوں سے جھگڑا ہوا تھا جس کے بعد صورتِ حال بگڑتی چلی گئی۔
وہ کہتے ہیں کہ اِس جھگڑے کے بعد بشکیک کے مقامی باشندوں نے ایک مہم شروع کی جس کے تحت 500 سے ایک ہزار تک مقامی افراد شہر کے مختلف علاقوں میں جمع ہونا شروع ہو گئے اور غیر ملکیوں کو ہراساں کرنا اور مارنا شروع کر دیا۔
واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے اُن کا مزید کہنا تھا کہ غیر ملکیوں کی لوکیشن ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کی گئیں جس میں زیادہ کردار ٹیکسی ڈرائیوروں نے ادا کیا جنہوں نے باقاعدہ ٹارگٹ کر کے ہوسٹلوں اور فلیٹوں کے دروازے توڑے ہیں۔ وہاں پر موجود طالبات کو بھی ہراساں کیا اور لڑکوں کو مارنا شروع کر دیا۔ ان کے بقول مشتعل افراد کے ہاتھوں میں لکڑی کے ڈنڈے اور لوہے کی سلاخیں تھیں۔
عمر عثمان نے بتایا کہ مقامی مظاہرین ان کے فلیٹ کے باہر پہنچے تو فلیٹ مالک نے کہا کہ یہاں کوئی غیر ملکی نہیں رہتا۔ مگر ساتھ والے فلیٹس میں مظاہرین غیر ملکی طلبہ کو یوں مار رہے تھے جیسے کوئی فلم کی عکس بندی ہو رہی ہے یا کوئی ویڈیو گیم کھیلی جا رہی ہے جس سے اُن سمیت دیگر طلبہ بہت زیادہ ڈر گئے۔
سیکیورٹی اداروں کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مقامی پولیس نے مشتعل افراد کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ البتہ پیرا ملٹری فورس اور فوجی دستوں نے صورتِ حال زیادہ بگڑ جانے پر شہر میں گشت شروع کیا جس کے بعد جہاں جہاں سے فوجی قافلہ گزرتا تھا وہاں امن ہو جاتا تھا۔ مگر اُس کے بعد پھر مقامی افراد جمع ہوتے اور غیر ملکی طلبہ پر تشدد شروع کر دیتے۔
اُن کا کہنا تھا کہ صورتِ حال معمول پر آنے کے بعد اُنہیں اپنے سرٹیفکیٹ اور اسناد لینے کے لیے دوبارہ واپس جانا پڑے گا۔
پاکستانی سفارتی عملے کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان کا سفارت خانہ اِس سلسلے میں طلبہ کی کوئی مدد نہیں کر رہا۔ تمام طلبہ اپنی مدد آپ کے تحت جانیں بچا رہے ہیں اور اپنی مدد آپ کے تحت بشکیک سے نکل رہے ہیں۔
عمر عثمان کی طرح بشکیک سے واپس آنے والے طلبہ میں سے ایک اور عائشہ تبسم ہیں جن کا تعلق پنجاب کے شہر سیالکوٹ سے ہے۔
عائشہ تبسم بشکیک میں میڈیکل کے آخری سال کی طالبہ ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ اُن کے والدین کو صورتِ حال سے متعلق درست نہیں بتایا جا رہا کہ مظاہرین بچوں سے بہت دور ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے پاکستانی سفارت خانے میں متعدد مرتبہ فون کیا۔ مگر اُن کی جانب سے ایک بھی فون کا جواب نہیں دیا گیا۔
عائشہ تبسم نے بتایا کہ ان سمیت مزید چار لڑکیاں ایک کمرے میں موجود تھے جب کہ تین دِن سے نو لوگ ایک فلیٹ پر بند رہے۔ اُن کے پاس کھانے پینے کا سامان ختم ہو چکا تھا۔
اُن کا مزید بتانا تھا کہ ہر گھنٹے بعد مشتعل افراد ٹولیوں کی صورت میں اُن کے فلیٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتے تھے جس سے اُنہیں یوں لگتا تھا کہ اب اُن کا آخری وقت آ گیا ہے۔
عائشہ تبسم نے پاکستان کی حکومت، وزارتِ خارجہ اور خاص طور پر بشکیک میں پاکستانی سفارتی عملے پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سفارت خانے کے عملے نے اُن سمیت کسی بھی طالبہ کا حال تک نہیں پوچھا۔ مگر جب وہ لاہور ایئرپورٹ پہنچی تو اُنہیں یہ احساس دلانے کی کوشش کی گئی کہ سب کچھ حکومت میں شامل لوگوں نے کیا ہے۔
عائشہ تبسم کے مطابق خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے طلبہ اور طالبات کو وہاں کی صوبائی حکومت مفت واپسی کا ٹکٹ دے رہی ہے جب کہ وہ خود مہنگا ٹکٹ لے کر آ رہے ہیں۔
ان کے بقول بشکیک سے پاکستان کا جہاز کا ٹکٹ جو 300 ڈالر کا تھا، اب صورت حال کے باعث 350 ڈالر کا ہو گیا ہے۔ وہ یہ ٹکٹ خرید کر چھپ کر ایئرپورٹ تک پہنچی تھیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ جب تک اُن کی بورڈنگ مکمل نہیں ہوئی اُن کو ایئرپرٹ پہنچانے والے ایک خاندان کے لوگ ایئرپورٹ کے باہر ہی موجود رہے۔
ایسی ہی صورتِ حال کرغزستان کے شہر بشکیک سے آنے والے تمام طلبہ اور طالبات نے بیان کی جن کا کہنا تھا کہ ہر فرد بڑی مشکل سے اپنی جان بچا کر بشکیک سے لاہور پہنچا ہے۔
خیال رہے کہ ہفتے کی شب طلبہ کو لے کر بشکیک سے پہلی پرواز لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچی جنہیں وزیرِ داخلہ سید محسن نقوی نے خوش آمدید کہا۔
وزارتِ داخلہ کے مطابق پہلی پرواز سے 140 طلبہ لاہور پہنچے ہیں۔
رواں ماہ 13 مئی کو سوشل میڈیا پر کرغزستان کے شہر بشکیک میں مقامی افراد کی جانب سے غیر ملکی طلبہ پر تشدد کی ویڈیوز سامنے آئی تھیں جن میں مشتعل افراد کمروں میں گھس کر کچھ لوگوں پر تشدد کر رہے تھے۔
دوسری جانب کرغزستان کی وزارتِ داخلہ کے ایک بیان کے مطابق صورتِ حال اب قابو میں ہے۔ امن و امان کی صورتِ حال کو برقرار رکھنے کے لیے پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔
بشکیک کی خراب صورتِ حال کے باعث پاکستان کے نائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے اتوار کو لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ مزید دو پروازوں سے طلبہ اور طالبات پاکستان آ رہے ہیں جن کو خصوصی طور پر واپس لایا جا رہا ہے۔
اسحاق ڈار کے مطابق پیر کو 600 سو سے زائد پاکستانی طلبہ اور طالبات واپس پہنچ جائیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ بشکیک میں خراب صورتِ حال کے باعث کوئی بھی پاکستانی طالب علم ہلاک نہیں ہوا البتہ چھ طلبہ زخمی ہوئے ہیں۔