پاکستان میں سائبر کرائم کیسز میں سزاؤں کی شرح کم کیوں ہے؟

  • وزارتِ داخلہ کی طرف سے قومی اسمبلی میں جمع کروائی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق چار سال کے عرصے میں سائبر کیسز پر سزاؤں کی شرح صرف تین فی صد کے قریب ہے۔
  • تجزیہ کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی بڑی وجہ ایف آئی اے کی طرف سے انکوائری کیے بغیر بے دریغ کیسز کا اندراج ہے۔
  • سن 2022 میں سزا کا تناسب صرف تین فی صد رہا، 2022 میں 1469 کیسز میں سے صرف 48 کیسز میں سزائیں ہوئیں۔
  • ماہرین کے مطابق سزاؤں کا خوف نہ ہونے کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد نت نئی تیکنیک اور ذرائع اختیار کر کے بینکنگ ٹیکنالوجی اور طریقہ کار کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

اسلام آباد -- پاکستان میں سائبر کرائم کے حوالے سے قانون سازی اور وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) کو اختیارات دیے جانے کے باوجود سائبر کرائم کے کیسز میں سزائیں نہ ہونے کی شرح بہت کم ہے۔

وزارتِ داخلہ کی طرف سے قومی اسمبلی میں جمع کروائی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق چار سال کے عرصے میں سائبر کیسز پر سزاؤں کی شرح صرف تین فی صد کے قریب ہے۔ اس عرصے کے دوران پانچ ہزار سے زائد سائبر کرائم سے متعلق کیسز عدالتوں میں گئے لیکن صرف 222 ملزمان کو سزائیں سنائی گئیں۔

تجزیہ کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی بڑی وجہ ایف آئی اے کی طرف سے انکوائری کیے بغیر بے دریغ کیسز کا اندراج اور فارنزک کے ماہر پراسیکیوشن، تفتیش کار اور جدید تیکنیکی امور سے نابلد ججز ہیں جو سائبر کرائم کو ثبوتوں کے ساتھ ملا کر جرم کی نوعیت پر سزائیں نہیں دلوا سکتے۔

پچھلے پانچ سال میں سات ہزار سے زائد ملزمان سائبر کرائم کیسز میں گرفتار کیے گئے۔ مجموعی طور پر پانچ سال میں 222 کیسز میں ملزمان کو عدالتوں سے سزائیں ملیں۔

دستاویز کے مطابق پانچ سال میں 73 ہزار 825 کیسز پر انکوائریاں درج کی گئیں۔ سن 2024 میں سزا کا تناسب صرف دو فی صد رہا، پچھلے سال 1044 کیسز میں سے صرف 24 کیسز میں سزائیں ہوئیں۔

سن 2022 میں سزا کا تناسب صرف تین فی صد رہا، 2022 میں 1469 کیسز میں سے صرف 48 کیسز میں سزائیں ہوئیں۔

سن 2021 میں سزا کا تناسب صرف تین فی صد، 2023 میں چھ فی صد رہا۔ سن 2023 میں 1375 کیسز میں سے صرف 92 کیسز میں سزائیں ہوئیں۔

ایف آئی اے سائبر کرائم نے چھ ماہ میں 10 ہزار انکوائریوں میں 900 ملزمان کو پکڑا۔ سن 2021 میں 1224 کیسز میں سے صرف 38 کیسز میں سزائیں ہوئیں۔ سن 2020 میں سزا کا تناسب صرف تین فی صد رہا۔ سن 2020 میں 601 کیسز میں سے صرف 20 کیسز میں سزائیں سنائی جا سکیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک میں سائبر کرائمز کے مرتکب افراد کو دی جانے والی سزاؤں کی شرح کم ہونے کی وجہ سے سائبر کرائمز بالخصوص مالیاتی جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔

'سائبر کیسز بلیک میلنگ ٹول بن چکے ہیں'

ماہرین کے مطابق سزاؤں کا خوف نہ ہونے کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد نت نئی تیکنیک اور ذرائع اختیار کر کے بینکنگ ٹیکنالوجی اور طریقہ کار کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں جس سے مالیاتی شعبے پر سائبر حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

حکام کے مطابق گزشتہ برس جنوری سے اکتوبر تک پاکستان میں مالیاتی شعبے پر سائبر حملوں میں 114 فی صد اضافہ ہوا۔

تجزیہ کار اور سینئر قانون دان عمران شفیق ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ سائبر کرائم میں سزائیں نہ ہونے کی مختلف وجوہات ہیں اس میں ایف آئی اے کی طرف سے انکوائری کے بغیر کیسز کا اندراج، ایف آئی اے کی باقاعدہ تربیت نہ ہونا، پراسیکیوشن کرنے والے افراد کی باضابطہ تربیت نہ ہونا اور دیگر مسائل شامل ہیں۔

عمران شفیق کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے میں طریقہ کار ہے کہ پہلے باقاعدہ انکوائری ہوتی ہے جس کے بعد مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔ لیکن سائبر کیسز ایف آئی اے کے لیے بلیک میلنگ کا ٹول بن گیا ہے۔

اُن کے بقول اس وقت صحافیوں اور سیاست دانوں پر بھی اسی قانون کے تحت مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں ایک کمیشن بننا چاہیے جو ان تمام مقدمات کا جائزہ لے کہ یہ کیسز کن بنیادوں پر اور کن وجوہات کی بنا پر کن افسران نے درج کیے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

:سائبر کرائمز: نیا ادارہ جرائم روک سکے گا؟

عمران شفیق کے بقول تفتیش کاروں اور ججز سمیت کسی کو بھی تیکنیکی طور پر تربیت نہیں ہے کہ وہ تمام ثبوتوں کا مکمل طور پر جائزہ لے سکیں۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ ججز جنہوں نے پرانے فون استعمال کیے ہیں اگر وہ موجودہ دور کے جدید موبائل فونز میں ہونے والے جرائم کو پرکھیں تو میرے خیال میں ایسا ممکن نہیں ہے۔

اُن کے بقول ہمارے پاس فارنزک پڑتال کے لیے کوئی خاص ادارہ کام نہیں کر رہا۔ اکثر فارنزک ثبوت عدالتوں میں پہنچتے ہیں تو اس میں کئی تبدیلیاں آ چکی ہوتی ہیں۔

اُن کے بقول تمام شہادتوں کو مکمل نہ کیے جانے کی وجہ سے عدالتوں میں ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ کیس عدالتوں میں پیش کیے جانے سے پہلے تفتیش کار اور پراسیکیوشن مل کر تمام فرانزک ثبوتوں اور گواہان کے ساتھ مل کر کیس کا مکمل جائزہ لیں اور اس کے بعد انہیں عدالت میں پیش کریں کیوں کہ ایسے ان کیسز کا وہی انجام ہو گا جو اس وقت ہو رہا ہے۔

'ایف آئی اے پر عوام کا اعتماد کم ہو رہا ہے'

ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والے ہارون بلوچ کہتے ہیں کہ عوام کو ایف آئی اے پر اعتبار ہی نہیں ہے اس وجہ سے بھی کیسز بہت بڑی تعداد میں ایف آئی اے کے پاس نہیں آئے۔

ہارون بلوچ کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگ کیسز رپورٹ ہی نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود گزشتہ سال سوا لاکھ کے قریب کیسز درج کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے اس وقت زیادہ ایکٹو نظر آتی ہے جب کوئی سیاسی نوعیت کا معاملہ ہو یا پھر کسی صحافی کے خلاف ایکشن لینا ہو۔

وہ کہتے ہیں کہ جیسے ہی ایسا کوئی معاملہ سامنے آتا ہے ایف آئی اے کیسز کا اندراج کر کے فوری طور پر چھاپے مارنا شروع کر دیتا ہے۔

اُن کے بقول یہ الگ بات ہے کہ سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے یہ کیسز عدالتوں سے خارج کر دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سول رائٹس پر کام کرنے والوں کے خلاف بھی سائبر کرائم ونگ کو مس یوز کیا جاتا ہے۔

ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل اسحق جہانگیر کہتے ہیں کہ سائبر کرائم کے حوالے سے ادارے کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے سائبر کرائم کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔

اُن کے بقول تینوں شعبوں میں اسپیشلائزڈ افسران تعینات کیے جائیں گے۔ ڈی جی ایف آئی اے کے مطابق ان شعبوں میں چائلڈ پورنوگرافی، فائننشل کرائم اوردیگر سائبر کرائم شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سائبر کرائم ونگ کو ماڈرنائز کیا جا رہا ہے۔

ڈی جی ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ اگلے مرحلے میں لاہور اور کراچی کے سائبر کرائم ونگ کو بھی ماڈرنائز کیا جائے گا۔