امریکی ریاست ٹیکساس کی ایک یہودی عبادت گاہ میں عافیہ صدیقی کی رہائی کے خواہاں ایک شخص کی ہلاکت کے بعد ایک بار پھر یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ شدت پسند گروہ یا افراد انہیں امریکی جیل سے رہا کروانے کے لیے لوگوں کو اغوا یا دہشت گردی کی کارروائیاں کیوں کرتے ہیں؟
امریکی حکام کے مطابق ہفتے کی شب ٹیکساس کے شہر کولیویل میں 44 سالہ برطانوی نژاد پاکستانی شہری ملک فیصل اکرم نے یہودیوں کی عبادت گاہ میں چار افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔ بعدازاں وہ پولیس کی فائرنگ سے مارا گیا، جب کہ یرغمالیوں کو بحفاظت بازیاب کروا لیا گیا تھا۔
حکام کے مطابق ملک فیصل اکرم عافیہ صدیقی سے بات کرنا چاہتا تھا جو کہ ٹیکساس ہی کی فیڈرل جیل میں قید ہیں۔
عالمی جہادی تنظیموں کی سرگرمیوں کو ٹریک کرنے والے ادارے ایس آئی ٹی آئی انٹیلی جنس گروپ کے مطابق سوشل میڈیا بالخصوص ٹیلی گرام پر القاعدہ کے اہم مبلغین نے ٹیکساس واقعے کو سراہا ہے۔
پاکستانی شہری عافیہ صدیقی کو امریکی عدالت نے افغانستان میں امریکی فوجیوں اور ایف بی آئی اہل کاروں پر قاتلانہ حملے سمیت سات الزامات کے تحت 86 برس قید کی سزا سنائی تھی۔
ٹیکساس کی یہودی عبادت گاہ میں لوگوں کو یرغمال بنا کر عافیہ صدیقی کی رہائی کے مطالبے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔
اس سے قبل الجزائر، شام، پاکستان اور افغانستان میں فعال مختلف شدت پسند گروہ مغویوں کے عوض عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ یہ عناصر عافیہ کی قید کو غلط قرار دے کر دہشت گردی کی کارروائیاں کر چکے ہیں اور اب تک درجنوں افراد ان واقعات میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
القاعدہ کی یمن شاخ نے 2014 میں ایک امریکی صحافی لیوک سومرز کو اغوا کر لیا تھا۔ اغوا کاروں نے نہ صرف عافیہ صدیقی بلکہ امریکی جیل میں قید شدت پسند رہنما شیخ عمر عبدالرحمان کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا تھا۔
البتہ امریکی حکومت کے انکار پر مذکورہ صحافی کو قتل کر دیا گیا تھا۔
شام میں امدادی کارروائیوں میں مصروف امریکی سماجی کارکن کائیلا میولر کو شدت پسند تنظیم داعش نے 2013 میں اغوا کر لیا تھا۔ ایک سال بعد عافیہ صدیقی کے بدلے ان کی رہائی کی پیش کش کی گئی تھی۔ یہ مطالبہ پورا نہ ہونے پر انہیں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
داعش نے 2014 میں شام سے اغوا ہونے والے امریکی صحافی جیمز فولی کی رہائی کے بدلے 132 ملین ڈالر تاوان کے ساتھ ساتھ عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
امریکی انتظامیہ نے شدت پسندوں کے دونوں مطالبے مسترد کر دیے تھے جس پر داعش کے شدت پسندوں نے جیمز فولی کو قتل کر دیا تھا۔
اس سے قبل القاعدہ سے وابستہ الجزائر کے شدت پسندوں نے شمالی صحرا میں واقع آئل فیلڈ میں کام کرنے والے درجنوں افراد کو یرغمال بنا لیا تھا جن میں امریکی شہری بھی شامل تھے۔
یرغمالیوں نے عافیہ صدیقی کے ساتھ ساتھ امریکی جیل میں قید مصری نژاد شیخ عمر عبد الرحمٰن کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
سن 2010 میں شیخ عمر عبدالرحمٰن کو نیویارک میں 1993 میں بم دھماکوں کے جرم میں سزا ہوئی تھی۔
پاکستان اور افغانستان میں بھی عافیہ کے نام پر دہشت گردی کی کارروائیاں
کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) بھی ملک میں دہشت گردی کے مختلف حملوں کو عافیہ صدیقی کو امریکی حکام کے حوالے کرنے اور ان کی رہائی کے لیے سنجیدہ کوششیں نہ کرنے سے جوڑتی رہی ہے۔
مارچ 2013 میں ٹی ٹی پی نے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں واقع جوڈیشنل کمپلیکس پر خودکش حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ تنظیم کے عافیہ صدیقی بریگیڈ کی جانب سے کیا گیا ہے۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ عدلیہ عافیہ صدیقی جیسے معصوم شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہو چکی ہے جس کی وجہ سے انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ٹی ٹی پی نے ہی جولائی 2011 میں بلوچستان کے علاقے لورالائی سے سوئٹزر لینڈ کے جوڑے اولیور ڈیوڈ اور مسز ٹنیلیا کو اغوا کیا تھا۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری ویڈیوز میں انہیں طالبان کی حراست میں دکھایا گیا جو اپنی رہائی کے عوض عافیہ صدیقی کی رہائی کی درخواست کر رہے تھے۔ مارچ 2012 میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان میں ایک کارروائی میں سوئس جوڑے کو بازیاب کروا لیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسی طرح افغان طالبان نے افغانستان کے صوبہ کنڑ سے لنڈا نینگرو نامی برطانوی سماجی کارکن کو اغوا کیا تھا اور ان کی رہائی کے بدلے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
اس کے علاوہ بھی افغان طالبان اور ٹی ٹی پی متعدد کارروائیوں میں عافیہ صدیقی کا نام بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔
عافیہ صدیقی کے اہلِ خانہ کیا کہتے ہیں؟
عافیہ صدیقی کا خاندان شروع ہی سے ان کے نام سے منسلک دہشت گردی کی کارروائیوں کے خلاف احتجاج کرتا رہا ہے۔
ٹیکساس واقعے پر ردِعمل دیتے ہوئے کراچی میں مقیم عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ جب بھی عالمی سطح پر اُن کی رہائی کی کوششیں تیز ہوتی ہیں اس نوعیت کے واقعات ان پر پانی پھیر دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کو ٹیکسٹ میسج کے ذریعے بھیجے گئے پیغام میں انہوں نے کہا کہ ہلاک ہونے والے حملہ آور کی کارروائی ناقابلِِ قبول تھی جو عافیہ صدیقی کی رہائی کی پرامن اور انسانی حقوق کے حوالے سے جاری تحریک کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔
عافیہ صدیقی کا نام کیوں استعمال کیا جا رہا ہے؟
شدت پسندی سے متعلق امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان و افغانستان سے لے کر الجزائر و شام تک القاعدہ، داعش، ٹی ٹی پی اور افغان طالبان سمیت سارے شدت پسند گروہ عافیہ صدیقی کی مظلومیت کو مزاحمت کے نشان کے طور پر پیش کر کے اپنی دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
پشاور کے سینئر صحافی افتخار فردوس کئی برسوں سے اسلامی شدت پسند تنظیموں کے امور کا مطالعہ کرتے آ رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت عالمی جہادی دنیا میں شدت پسند تنظیموں کے لیے عافیہ صدیقی کے علاوہ کوئی دوسری خاتون شخصیت موجود نہیں جن کی 'مظلومیت' کا فائدہ اٹھایا جا سکے۔
ان کے بقول القاعدہ کے لٹریچر میں عافیہ صدیقی کے متعدد بار حوالے دیے جاتے ہیں۔
اسلام آباد میں قائم انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی اُمور کے سربراہ محمد اسرار مدنی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شدت پسند تنظیمیں بعض ذرائع ابلاغ میں عافیہ صدیقی کے ساتھ جسمانی تشدد کے حوالے سے شائع رپورٹوں کو بھی اپنے مقاصد، جیسے نئے اراکین کی بھرتی یا ہمدردری حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اپنے بیانیے کی تشکیل کے عمل میں بھی القاعدہ، داعش یا ٹی ٹی پی جیسی شدت پسند تنظیمیں مظلومیت کو استعمال کرتی رہی ہیں۔
’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی اہم کہانی
امریکہ کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نیورو سائنس دان عافیہ صدیقی کی کہانی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے جڑی کہانیوں میں سب سے اہم ہے، جو مارچ 2003 میں اُس وقت شروع ہوئی جب القاعدہ کے اہم رہنما اور نائن الیون حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کو راولپنڈی سے گرفتار کیا گیا۔
خالد شیخ محمد کو گرفتاری کے بعد گوانتاناموبے منتقل کر دیا گیا جس کے بعد وہ اپنے تین کمسن بچوں کے ہمراہ 2003 میں پاکستان سے پراسرار طور پر لاپتا ہو گئی تھیں۔ جس کے بعد ان کی موجودگی کا انکشاف افغانستان میں بگرام کے امریکی فوجی اڈے میں ہوا تھا۔
عافیہ صدیقی پر الزام تھا کہ انہوں نے افغانستان کے صوبہ غزنی کی ایک جیل میں قید کے دوران ایف بی آئی کے اہل کاروں کی ایک ٹیم پر اس وقت قاتلانہ حملہ کرنے کی کوشش کی تھی جب وہ ان سے 'القاعدہ' کے ساتھ ان کے مبینہ روابط کی تفتیش کر رہے تھے۔
اگرچہ اس حملے میں کوئی اہل کار زخمی نہیں ہوا تھا۔ البتہ امریکی فوجی کی جوابی فائرنگ سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی پیٹ میں گولی لگنے سے زخمی ہو گئی تھیں۔
سال 2010 میں ایک امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی فوجی پر حملے کے جرم سمیت سات مختلف الزامات میں 86 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں بندوق چلانے کا کوئی علم نہیں اور نہ ہی انہوں نے کوئی ایسا جرم کیا تھا۔
ایک امریکی عدالت نے 2012 میں عافیہ صدیقی کے مقدمے کی کارروائی کے مبینہ طور پر غیر شفاف ہونے سے متعلق عافیہ کے وکلا کے دعوؤں اور سزا کے خلاف دائر ان کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے انہیں سنائی جانے والے قید کی سزا برقرار رکھی تھی۔