پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں ایک بار پھر حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے سرگرم ہیں۔ ایک جانب سابق صدر آصف علی زرداری نے لاہور میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں تو وہیں لندن میں مقیم سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے عمران خان حکومت کی جلد سے جلد رُخصتی کے لیے تمام آئینی راستے اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے پیر کو حکومت کی اہم اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کی تھی جب کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے بھی تمام آپشنز کھلے رکھنے کا عندیہ دے رکھا ہے اور اس کے مرکزی رہنماؤں نے منگل کو مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف سے ملاقات کی ہے۔
اس سے قبل سابق صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ہفتے کو مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے ملاقات کر کے حکومت کے خلاف ایک بار پھر مل کر چلنے پر اتفاق کیا تھا۔
مبصرین موجودہ سیاسی حالات میں حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں اور اپوزیشن پارٹیوں کی ان ملاقاتوں کو اہم قرار دے رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق گزشتہ ساڑھے تین برس پر نظر دوڑائی جائے تو حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے پلیٹ فارم کے علاوہ کئی قومی معاملات پر اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اعتماد کا فقدان نظر آیا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اپوزیشن جماعتیں چاہتی کیا ہیں؟ کیا وہ تحریکِ عدم اعتماد لا کر عبوری حکومت قائم کرنا چاہتی ہیں؟ یا نئے انتخابات اپوزیشن جماعتوں کی خواہش ہے؟ سیاسی افق پر اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ اہم قومی معاملات پر اپوزیشن کے بڑے کھلاڑی نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کہاں کھڑے ہیں؟
'اتحادی جماعتیں بغاوت کے موڈ میں نہیں ہیں'
سینئر تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کے حکومت کے اتحادیوں سے رابطوں کے باوجود اتحادی جماعتیں کسی بغاوت کے موڈ میں نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ اپوزیشن اپنے طور پر حکومت کو نہیں گرا سکے گی اس کے لیے انہیں حکومتی میں شامل اتحادیوں کے ووٹوں کی ضرورت ہو گی یا حکمراں جماعت کے اندر کسی گروپ کی ضرورت ہو گی۔
خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف، ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق)، جے ڈی اے کے ارکان پر مشتمل حکمراں اتحاد کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے مقابلے میں چند ووٹوں کی ہی برتری حاصل ہے۔اگر مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم پاکستان حکومت سے الگ ہو جائیں تو حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی پر عوامی دباؤ ہے اور اس وقت ان کا مشترکہ مفاد یہ ہے کہ وہ اس دباؤ سے نکلیں۔ حالاں کہ بار بار دونوں جماعتوں کے رہنما یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے مقابلے میں الیکشن بھی لڑیں گے۔
سینئر تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ وہ 100 فی صد یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گی، لیکن یہ بات طے ہے کہ حکومت کے لیے یہ مشکل وقت ہے۔
اسی بارے میں
کیا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے قائدین کی ملاقات تحریکِ عدم اعتماد کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے؟خیبرپختونخوا: صوبائی وزیر پانچ سال کے لیے نااہل، حکمراں جماعت کو سیاسی نقصان ہو گا؟عمران خان کے نئے مشیر برائے احتساب بریگیڈیئر ریٹائرڈ مصدق عباسی کے اہداف کیا ہوں گے؟نواز شریف اور آصف زرداری کیا چاہتے ہیں؟
مجیب الرحمان شامی کے بقول نواز شریف کے قریبی حلقے یہی کہتے ہیں کہ نواز شریف فوری الیکشن کے حامی ہیں۔
اُن کے بقول نواز شریف چاہتے ہیں کہ اگر عمران خان کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک کامیاب ہوتی ہے تو فوری طور پر نئے انتخابات کا اعلان کیا جائے۔ البتہ آصف زرداری چاہتے ہیں کہ کچھ وقفہ لے کر انتخابات کروائے جائیں۔ لیکن ایسی صورت میں سوال یہ ہوگا کہ موجودہ حکومت کو چھوڑ کر اپوزیشن کا ساتھ دینے کی صورت میں مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کے ہاتھ کیا آئے گا؟ لہذٰا مستقبل میں کسی اُمید یا یقین دہانی پر ہی وہ اپوزیشن کا ساتھ دیں گے جس کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
سینئر تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کا خیال ہے کہ اب عمران خان کی حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل نہیں رہی۔
اُن کے بقول اپوزیشن جماعتوں کی حالیہ ملاقاتوں کا مقصد لانگ مارچ کے حوالے سے متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے 27 فروری کو جب کہ پی ڈی ایم نے 23 مارچ کو حکومت مخالف لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔
سلیم بخاری نے کہا کہ شہباز شریف سے ملاقات میں آصف زرداری نے (ن) لیگ پر زور دیا کہ وہ پیپلزپارٹی کے لانگ مارچ میں شرکت کرے۔ جب کہ اس پر بھی بات ہوئی کہ 23 مارچ کو پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کے لانگ مارچ میں شریک ہو۔
سلیم بخاری نے دعویٰ کیا کہ نواز شریف کے بھی جو مقتدر حلقوں سے رابطے ہوئے اس میں اُنہوں نے واضح کیا تھا کہ وہ شفاف اور آزادانہ نئے انتخابات چاہتے ہیں تاکہ کسی بھی جیتنے والی جماعت کو پانچ سال کا مینڈیٹ ملے۔
سینئر تجزیہ کار راشد رحمان کہتے ہیں کہ حکومت کو گرانے کے لیے جو راستہ اپوزیشن طے کرنا چاہتی ہے اس میں کئی رکاوٹیں ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے راشد رحمان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کی یہ خواہش رہی ہے کہ لانگ مارچ یا احتجاجی تحریکوں کے بجائے عدمِ اعتماد کی تحریک پیش کی جائے۔ پارلیمنٹ میں مختلف مواقع پر ہونے والی حالیہ رائے شماری سے واضح ہوتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے۔
اُن کے بقول چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ہو یا حال ہی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی بل کا معاملہ، اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے سے کوسوں دُور دکھائی دی ہیں۔
خیال رہے کہ حکومت نے حال ہی میں سینیٹ سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی بل منظور کرا لیا تھا۔ حالاں کہ سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے 57 اراکین تھے جن میں سے ووٹنگ کے دن صرف 42 ارکان ایوان میں حاضر تھے۔
راشد رحمان کہتے ہیں کہ حالیہ عرصے میں پارلیمنٹ میں ہونے والی ووٹنگ کا جائزہ لیں تو اس سے پتا چلتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے جو اعتماد درکار ہے اس کا فقدان ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کہاں کھڑے ہیں؟
راشد رحمان کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والی حالیہ ملاقاتوں میں مولانا فضل الرحمٰن کہیں نظر نہیں آتے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد نہیں ہے۔
اُن کے بقول پہلے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان غلط فہمیاں تھیں لیکن اب یہ معاملہ تین طرفہ ہو گیا ہے اور مولانا فضل الرحمٰن بھی ان جماعتوں سے دُور نظر آتے ہیں۔ لہذٰا ان حالات میں ان ہاؤس تبدیلی، لانگ مارچ سے زیادہ اُمیدیں وابستہ کرنا قبل از وقت ہے کیوں کہ کنفیوژن بہت زیادہ ہے۔
'مسلم لیگ (ن) اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بغیر شفاف انتخابات چاہتی ہے"
راشد رحمان کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) فوری طور پر آزاد اور منصفانہ انتخابات چاہتی ہے جس میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔
اُن کے بقول خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے پتا چلتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے بھی موجودہ حکومت سے کچھ دُوری اختیار کی ہے۔
خیال رہے کہ خیبر پختونخوا میں پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں حکمراں جماعت تحریکِ انصاف کو شکست ہوئی تھی جب کہ جمعیت علماء اسلام (ف) نے کامیابی حاصل کی تھی۔
راشد رحمان کہتے ہیں کہ یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ عام انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ مداخلت نہیں کرے گی کیوں کہ یہ ایک ملک گیر الیکشن ہو گا اور ملک کے سیاسی منظر نامے کے خدوحال اسی لیکشن کے ذریعے واضح ہوں گے۔
سلیم بخاری سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ یہ فیصلہ کر چکی ہے یا کر لے گی کہ اُن کو اب غیر جانب دار ہونا ہے۔
حکمراں جماعت نے جلسوں کا اعلان کیوں کیا ہے؟
اپوزیشن جماعتوں کے متحرک ہونے کے بعد حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف نے بھی ملک گیر جلسوں کا اعلان کیا ہے۔
حال ہی میں پاکستان تحریکِ انصاف کی مرکزی مجلسِ عاملہ کے اجلاس کے دوران فیصلہ کیا گیا کہ ملک بھر میں عوامی رابطہ مہم شروع کی جائے گی جس میں حکومت کی کارکردگی عوام کے سامنے رکھی جائے گی۔
راشد رحمان کے بقول اب حکمراں جماعت کو بھی یہ ادراک ہو گیا ہے کہ ملک اب الیکشن کی طرف جا رہا ہے، لہذٰا وہ بھی الیکشن موڈ میں آ گئی ہے۔
اُن کے بقول اب حکمراں جماعت چاہتی ہے کہ عمران خان باہر نکلیں اور عوام کو متحرک کریں۔کیوں کہ 2022 اور 2023 میں الیکشن کے وقت تک پاکستان میں سیاسی ماحول اسی طرح گرم رہے گا۔