دنیا بھر میں جمہوری نظام کا جائزہ لینے والے بین الاقوامی جریدے “دی اکانومسٹ” کے انٹیلی جینس یونٹ کی تازہ رپورٹ میں پاکستان میں رائج حکومتی نظام کو 'آمرانہ نظام” قرار دیا گیا ہے۔
2023 کی اس ڈیموکریسی انڈیکس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سال ایشائی ممالک میں پاکستان واحد ملک ہے جس کا درجہ “ہائبرڈ' نظام “ سے گر کر “آمرانہ نظام “ میں تبدیل کیا گیا ہے۔
اکانومسٹ انٹیلی جینس یونٹ نے جمعرات کو کہا کہ جنگوں کے پھیلاؤ، آمرانہ کریک ڈاؤن اور مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں میں اعتماد کی گرتی ہوئی سطح کی وجہ سے 2023 میں دنیا بھر میں جمہوری معیارات تنزلی کا شکار ہوئے۔
Age of Conflict کے عنوان سے اس رپورٹ میں 150 سے زیادہ ملکوں میں جمہوریت کے حالات کا ایک مطالعہ کیا گیا ہے۔ ہر ملک میں حکومتی نظام کے مختلف پہلوں کا جائزہ لیتے ہوئے انہیں چار اقسام کی درجہ بندی میں ڈالا گیا ہے جنہیں مکمل جمہوریت، ناقص جمہوریت، ہائبرڈ حکومت اور آمرانہ حکومت کا نام دیا گیا ہے۔
اس سال کی رپورٹ میں امریکہ ، بھارت، برازیل، اور انڈونیشیا کو 'ناقص جمہوریت' قرار دیا گیا ہے، جو ان کے اپنے دیموکریٹک نظام میں مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔
اس سلسلے میں وائس آف امریکہ کی اردو سروس کو ایک تحریری جواب میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میھتیو ملر نے کہا “ ہم اس رپورٹ کے نتائج کو نوٹ کرتے ہیں کہ امریکہ کی “ناقص جمہوریت" کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے۔ امریکہ سمیت کوئی بھی جمہوریت بے داغ نہیں ہے۔”
SEE ALSO: انتخابات 2024 کے نتائج: اسٹیک ہولڈرز کے لیے حیران کنڈیموکریسی انڈیکس کی اہمیت کیا ہے؟
اس سلسلے وائس آف امریکہ کی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے سکول آف فارن سروس کے پروفیسر عاقل شاہ نے اس انڈیکس کی اہمیت سے متعلق کہا، “اس انڈیکس کو بااثر اکانومسٹ میگزین کے ریسرچ کے شعبے نے تیار کیا ہے اور اسے سرکاری ایجنسیاں، بین الاقوامی تنظیمیں کسی بھی ملک کی جمہوری صحت کے اشارے کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔”
پاکستان کی جمہوری نظام کے حوالے سے رینکنگ میں گزشتہ سال کے مقابلے میں اس برس کمی آئی ہے، اس سال پاکستان نے عالمی سطح پر 118 ویں جگہ حاصل کی ہے۔ پچھلے سال پاکستان کی رینکنگ 105 ویں تھی۔
پاکستان کا نظام “آمرانہ “ ہونے کا مطلب کیا ہے؟
‘آمرانہ' حکومتی نظام، رپورٹ کے مطابق، شفاف انتخابات، شخصی آزادیوں پر پابندیاں، اور سرکاری یا اشرافیہ کا میڈیا پر کنٹرول کوظاہر کرتا ہے۔
پاکستان کے درجے میں کمی کی ایک وجہ اس انڈیکس میں بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ "فوج کا سیاسی اثر و رسوخ حد سے زیادہ ہونے کا مطلب ہے کہ انتخابات آزادانہ، منصفانہ یا مسابقتی ہونے سے بہت دور ہیں۔”
SEE ALSO: انتخابات میں دھاندلی کا الزام: پی ٹی آئی نے مبینہ فارم 45 میڈیا کے سامنے پیش کر دیےوائس آف امریکہ کی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے پروفسر عاقل شاہ نے اس سے اتفاق کیا اور کہا “اس تنزلی کی بنیادی وجہ پاکستان میں انتخابی عمل پر فوج کے بے جا اثر و رسوخ اور پی ٹی آئی پر اس کا آمرانہ کریک ڈاؤن ہے۔“
اس رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ “بنگلہ دیش، پاکستان اور روس میں انتخابات تو ہوئے لیکن اپوزیشن قوتیں ریاستی جبر کا شکار ہیں، تاہم انتخابات، حکومتی نظام کی تبدیلی یا زیادہ جمہوریت لانے کا سبب نہیں بن پائیں گے۔"
خیال رہے پاکستانی ریاست ملکی انتخابات میں آپوزیشن پر جبر اور دھندلی کے الزامات کی تردید کر چکی ہے۔ اور اس رپورٹ سے متعلق ابھی تک کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا۔
اس سلسلے میں ایک تحریری جواب میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا “ہماری ترجیحات امریکہ اور پاکستان کے درمیان شراکت داری کو آگے بڑھانے، پاکستان کے جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے اور ایک خوشحال پاکستان کو فروغ دینے پر مبنی ہیں، جس کی قیادت پاکستانی عوام کی طرف سے منتخب کردہ جو بھی حکومت کرے۔”
SEE ALSO: انتخابات میں منقسم مینڈیٹ، دھاندلی کے الزامات اور احتجاجمکمل جمہوری ملک کون سے ہیں؟
جمہوری انڈیکس میں بہترین یعنی مکمل جمہوری نظام کے حامل سرفہرست تین ملکوں میں ناروے، نیوزی لینڈ اور آئس لینڈ شامل ہیں جب کہ اس ضمن میں سب سے نیچے آنے والے تین ممالک شمالی کوریا، میانمار اور افغانستان ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جمہوریتوں کے زمرے میں آنے والے ممالک کی تعداد میں تو اضافہ ہوا، لیکن جمہوریت کے عالمی اوسط انڈیکس سکور 2023 میں 5.23 تک گر گیا جو ایک سال پہلے 5.29 تھا۔اس سلسلے میں 2006 میں پہلی تحقیق شائع ہونے کے بعد سے جمہوری نظام کی یہ کم ترین عالمی سطح ہے۔
پاکستان سے متعلق وائس آف امریکہ کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کے تحریری جواب میں محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ انتخابی ریلیوں میں بے ضابطگیوں کےخلاف مختلف سیاسی جماعتوں کی ریلیوں سے آگاہ ہیں۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کا کہنا ہے کہ 'مداخلت یا دھوکہ دہی کے دعوؤں کی پاکستان کے قانونی نظام کے تحت مکمل اور شفاف طریقے سے تفتیش کی جانی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم تمام متعلقہ افراد سے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور اظہار رائے کی آزادی، پرامن اجتماع اور انجمن سازی کا احترام کرنے کی اپیل کرتے ہیں، یہ سب جمہوریت کی بنیاد ہیں۔