دنیا کے کئی ممالک میں کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے قانون سازی کی جا رہی ہے لیکن پاکستان کی پارلیمنٹ میں اس حوالے سے تاحال کوئی سرگرمی سامنے نہیں آئی۔
پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) اور ایوان زیریں (قومی اسمبلی) کے ارکان کی مجموعی تعداد 446 ہے۔ تاہم کرونا وائرس کے کیسز میں اضافے کے بعد سے اب تک کسی بھی رکن کی جانب سے قانون سازی کا کوئی بل سامنے نہیں آیا ہے۔ البتہ حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن جمع کرائی ہے۔
قانون کے مطابق قومی اسمبلی اور سینیٹ کو ایک سال میں 130 دن کا سیشن مکمل کرنا ہوتا ہے۔ سینیٹ کا 12 مارچ کے بعد سے اب تک کوئی اجلاس نہیں ہوا۔ قومی اسمبلی کے بھی ابھی صرف 100 دن مکمل ہوئے ہیں اور جولائی تک انہیں بھی 130 دن مکمل کرنے ہیں۔
اس بارے میں سینئر صحافی اور پارلیمانی رپورٹرز ایسویسی ایشن کے سابق صدر صدیق ساجد کہتے ہیں کہ اس وقت ارکان پارلیمنٹ، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ خود خوف کا شکار ہیں۔
ان کے بقول حکومت کی طرف سے اعلان نہیں کیا گیا لیکن اطلاعات ہیں کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر کام کرنے والے تین ملازمین کا کرونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا جس کے بعد بیشتر ملازمین کو پارلیمنٹ آنے سے روک دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر اسد قیصر کی کوشش ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بلایا جائے لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) اس سے انکار کر رہی ہے۔ اسپیکر آئینی تقاضا پورا کرنے کے لیے اجلاس بلانا چاہتے ہیں۔ لیکن بعض ارکان پارلیمنٹ میں اس حوالے سے خوف پایا جاتا ہے۔
صدیق ساجد نے کہا کہ اس کی ایک اور وجہ پارلیمان کو اہمیت نہ دینا بھی ہے۔ موجودہ دور حکومت میں عوام کے منتخب نمائندے بالکل خاموش بیٹھے ہیں اور قانون سازی کا کام رکا ہوا ہے۔
ان کے مطابق یوں لگتا ہے کہ ان کی بات کی کوئی اہمیت نہیں۔ پچیس رکنی پارلیمانی کمیٹی بنی لیکن اس نے بھی اب تک کوئی کام نہیں کیا۔ جو سفارشات پیش کی گئیں ان پر بھی کوئی عمل نہیں ہوا۔ ماضی میں عمران خان اس پارلیمنٹ کو ڈیبیٹنگ کلب کہتے رہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ وہ خود بھی اسے اہمیت دینے کو تیار نہیں۔
پارلیمان کا اجلاس کیوں نہیں بلایا جا رہا اور اس کو اہمیت کیوں نہیں دی جا رہی؟ اس سوال پر وزیرِ اعظم کے ترجمان ندیم افضل چن کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلانا اسپیکر قومی اسمبلی کا استحقاق ہے۔ وہ جب چاہیں گے اجلاس بلا لیں گے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ندیم افضل چن نے کہا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے حوالے سے حکومت اسپیکر کو ہدایات نہیں دے سکتی۔ پارلیمنٹ ایک خود مختار ادارہ ہے اور اسپیکر اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں۔ لہذا حکومتی ترجمان ہونے کی حیثیت سے وہ اس پہ زیادہ تبصرہ نہیں کرسکتے۔
معروف سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمان کا کام اجتماعی دانش کو سامنے لانا ہے۔ جب کوئی بحران ہو تو اس وقت ارکان پارلیمنٹ مل کر بیٹھتے ہیں اور اس کا حل نکالتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں ایسا کوئی عمل نظر نہیں آ رہا۔
انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کے خطرے کا بہانہ بنا کر اجلاس نہ بلانا درست نہیں۔ اس کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے، حفاظتی اقدامات کیا ہوں، یہ اسپیکر اور دیگر ادارے مل کر فیصلہ کریں۔ لیکن اجلاس ضرور بلانا چاہیے۔
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ارکان پارلیمنٹ کا تعلق مختلف علاقوں سے ہوتا ہے۔ وہ اپنے علاقے کے مسائل اور وہاں استعمال میں لائی جانے والی دانش اور فیصلوں کو اپنے علاقوں سے پارلیمان میں لاتے ہیں جب کہ یہاں سے ہونے والے اجتماعی فیصلوں کو اپنے علاقوں میں لے کر جاتے ہیں۔ لیکن یہاں تو بالکل خاموشی ہے اور ارکان پارلیمان سے کچھ پوچھا ہی نہیں جا رہا۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کا اجلاس ہر حال میں ہونا چاہیے۔ چاہے یہ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ہو یا پھر کسی اور ذرائع سے۔ مگر اجلاس لازمی ہو تاکہ قومی سطح پر فیصلے ہو سکیں۔ ابھی حکومت کے چند وزیر مل کر فیصلے کر رہے ہیں جو درست نہیں۔
سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کا سیشن نہ ہونا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پارلیمان کی کمیٹیاں حکومت کے کام کی نگرانی کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں محدود سطح پر سہی لیکن وہاں اجلاس ہو رہے ہیں۔ اس وقت عوام کی نظریں پارلیمان کی طرف ہیں اور پارلیمان خاموش بیٹھی ہے۔
ان کے بقول اس وقت آئی ٹی کے بہت سے ذرائع ہیں جن کے ذریعے اجلاس بلائے جاسکتے ہیں۔ اس وقت امدادی پروگرام جاری ہے۔ احساس پروگرام کے ذریعے 144 ارب روپے تقسیم ہو رہے ہیں لیکن ان کی نگرانی کوئی نہیں کر رہا۔ آئندہ کچھ عرصے میں بجٹ سیشن ہے۔ بہت سے آرڈیننس ہیں جن کی مدت ختم ہو رہی ہے اور انہیں پارلیمنٹ میں لانا ہے لیکن اجلاس نہ ہونے کی وجہ سے عوام کی نمائندگی نہیں ہو پا رہی۔
ویڈیو لنک سے اجلاس بلانے پر انہوں نے کہا کہ ویڈیو لنک کے ذریعے کمیٹیوں کے اجلاس تو ہو سکتے ہیں لیکن پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے کہا کہ ویسے بھی ورچوئل اجلاس بلانے یا نہ بلانے کے حوالے سے بھی اسی پارلیمنٹ نے فیصلہ کرنا ہے کہ ایسا ممکن بھی ہے یا نہیں۔ لیکن یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب اجلاس بلایا جائے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن قومی اسمبلی میں جمع کروا دی ہے۔ قومی اسمبلی کے 98 ارکان کے دستخطوں سے جمع ہونے والی اس ریکوزیشن میں کہا گیا ہے کہ کرونا کے حوالے سے حکومتی اقدامات، بیرون ممالک سے آنے والی امداد، اب تک کیے گئے اخراجات، ٹائیگر فورس کی قانونی حیثیت، چینی و گندم بحران کے حوالے سے ایف آئی اے کی رپورٹ پر بحث اور تمام معلومات عوام تک پہنچانے کے لیے اسمبلی کا اجلاس بلایا جانا ضروری ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی جانب سے جمع کرائی گئی ریکوزیشن کے بعد اسپیکر کے لیے لازم ہے کہ وہ آئندہ 14 دن کے اندر اجلاس طلب کریں۔
حکومت کے لیے مشکل مرحلہ بجٹ کا ہے جس کے لیے اجلاس بلانا ضروری ہے۔ ایف بی آر میں بجٹ کی تیاری جاری ہے لیکن اس بار سیشن کیسا ہوگا، اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔