|
کراچی__مسلم لیگ (ن) کی زیرِ قیادت وفاقی حکومت کو بجٹ میں بھاری ٹیکسز سمیت کئی اقدامات پر اپوزیشن کے ساتھ ساتھ اتحادی پیپلزپارٹی نے بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا لیکن آخر میں اسی کی حمایت سے فنانس بل 2025 کی منظور ممکن ہوئی۔
پیپلز پارٹی نے جس طرح بجٹ سے متعلق پہلے ناراضی کا اظہار کیا اور پھر اس کی منظوری پر رضامند ہو گئی جسے بعض مبصرین سیاسی داؤ پیچ قرار دیتے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اختلافات ہونے کے باوجود دونوں بڑی جماعتیں اس وقت ایک ساتھ کام کرنے پر مجبور ہیں۔
ان کے بقول، دونوں کا ووٹ بینک مختلف ہونے کی وجہ سے مفادات کا ٹکراو فی الحال پیدا نہیں ہو رہا تاہم اپنے مشترکہ سیاسی حریف عمران خان کی وجہ سے ان دونوں بڑی جماعتوں کو ساتھ ساتھ چلنا پڑ رہا ہے۔
پیپلز پارٹی نے کب کیا کیا؟
اہم حکومتی اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی نے 12 جون کو قومی اسمبلی میں بجٹ پیش ہونے کے موقعے پر اس کی مخالفت کی تھی۔
پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے واک آوٹ کیا تھا۔ لیکن بعد میں ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار کی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کے بعد اجلاس میں صرف ٹوکن شرکت ہی پر اکتفاء کیا تھا۔
SEE ALSO: عام پاکستانی پر ٹیکسوں کا بوجھ لیکن اداروں کے بجٹ میں اضافہ کیوں؟اس وقت پارٹی رہنماؤں کا اصرار تھا کہ حکومت نے اتحادی ہونے کے باوجود انہیں کسی بجٹ اسکیم پر اعتماد میں نہیں لیا۔ اس دوران کئی بجٹ سیشنز میں پیپلز پارٹی کے محض چند اراکین ہی بجٹ اجلاس میں شریک ہوئے۔
اس دوران پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے صوبائی ترقیاتی اسکیمز بحال کرانے، پنجاب میں پاور شیئرنگ سمیت کئی امور پر مطالبات اور شکوہ شکایتوں کی بازگشت سنائی دیتی رہی تاہم کسی بھی اہم رہنما نے کھل کر کوئی بیان نہیں دیا۔
اسی اثناء میں 22 جون کو وزیرِ اعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی ایک ہی ملاقات کے بعد پیپلزپارٹی کی رائے تبدیل ہو گئی اور اس نے بجٹ کے حق میں ووٹ بھی دے دیا۔
بجٹ کیوں منظور کرایا؟
پیپلز پارٹی کی مرکزی ترجمان اور رکنِ قومی اسمبلی شازیہ مری کا کہنا ہے کہ پارٹی کی کئی تجاویز حکومت کی جانب سے فنانس بل میں شامل کرنے پر اس کی حمایت کا فیصلہ کیا گیا۔
ان تجاویز میں کئی اہم اشیاء پر سیلز ٹیکس استثناء ختم کرنے کے فیصلے کو واپس لینا بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر حکومت نے دل کہ سرجری کے لیے ضروری آلات منگوانے پر بھی ٹیکس عائد کیا تھا جسے پیپلز پارٹی کی مخالفت کے باعث واپس لینا پڑا۔
ان کے بقول خیراتی اداروں کے لیے آلات کی خریداری یا درآمدات پر بھی ٹیکس عائد کیا گیا تھا جو واپس لیا گیا۔ جب کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بجٹ میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے۔
SEE ALSO: صدر کے دستخط سے بجٹ منظور؛ آج سے لاگو ہونے والی نئی پینشن اسکیم ہے کیا؟شاریہ مری کا کہنا تھا کہ دیگر تجاویز کے ساتھ سندھ میں مختلف پراجیکٹس پر وفاق کی جانب سے فنڈنگ بحال کرنے کے بعد ہی پارٹی نے مشاورت سے بجٹ کی حمایت کا فیصلہ کیا۔
تاہم بعض معاشی اور سیاسی تجزیہ کار اس پر الگ رائے رکھتے ہیں۔
معاشی مبصر شبر زیدی نے پیپلز پارٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی نے مسلم لیگ ن کے ساتھ سودے بازی کی اور اس کے بعد بھاری ٹیکسوں والا بجٹ ایوان سے منظور کرانے میں کردار ادا کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بجٹ کی کوئی سمت نہیں یے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کسی معاشی ٹیم نے نہیں بلکہ چند جونئیر افسران نے بنایا ہے۔
شبر زیدی کے مطابق بجٹ میں تقریباً ہر اس شعبے میں ٹیکسز کی بھرمار کر دی گئی ہے جس کا تعلق عوام کی اکثریت سے ہے مگر عوام کو ریلیف نہیں دیا گیا۔
’سیاسی اتحاد کا جواز ختم ہو جاتا‘
تجربہ کار صحافی مظہر عباس کاکہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے بجٹ منظور کرانے میں مدد دے کر ایک بار پھر حکومت کو بچایا ہے اور پوری صلاحیت رکھنے کے باوجود حکومت کو غیر مستحکم کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
تاہم ان کے بقول یہ بات بھی اہم ہے کہ پیپلز پارٹی کو اس حکومت کی بقاء میں اپنی بہتری بھی دکھائی دیتی ہے۔ کیوں کہ اگر بجٹ منظور نہیں ہوتا تو ظاہر ہے کہ حکومت کا وجود خطرے میں پڑ سکتا تھا۔
SEE ALSO: قومی اسمبلی سے بجٹ منظور؛ 'قرض ملنے کے امکانات روشن مگر مہنگائی بھی بڑھے گی'ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت غیرمستحکم ہونے کے بعد ختم ہو جاتی اور نئے عام انتخابات ہو جاتے تو پیپلزپارٹی کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا تھا۔
ان کے مطابق نئے انتخابات کی صورت میں بھی پیپلز پارٹی کو ایک ہی صوبے میں حکومت بنانے کا موقع ملتا۔ جب کہ اس وقت وفاق اور بلوچستان میں اسے جو پوزیشن حاصل ہے وہ بھی ہاتھ سے جاتی۔
مظہر عباس کے مطابق پیپلز پارٹی کی قیادت بخوبی سمجھتی ہے کہ اس وقت جس قدر شیئر اسے حکومت میں ملا ہوا ہے، فی الحال کسی اور حکومت میں اس سے زیادہ نہیں مل سکتا۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو زیادہ اسپیس کا مطالبہ بھی محض سیاسی تھا کیوں کہ پنجاب میں اگر پیپلز پارٹی کو اسپیس دے تو پھر مسلم لیگ (ن) خود کیا کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ موجود حالات میں لگتا نہیں کہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کے لیے کوئی مشکل کھڑی کر پائے گی۔