روس میں آزمائشی بنیادوں پر جمعے سے اسلامک بینکنگ کا آغاز کیا جارہا ہے۔ رواں برس اگست میں صدر ولادیمیر پوٹن نے روس میں اسلامی بینکنگ متعارف کرنے کے کی منظوری دی تھی۔
صدارتی حکم نامے کے مطابق یکم ستمبر سے شروع ہونے والا اسلامک بینکنگ کا پروگرام آئندہ دو برس تک روس کے مرکزی بینک کی نگرانی میں آزمائشی بنیادوں پر جاری رہے گا۔
ابتدائی طور پر اسلامک بینکنگ کا پروگرام مسلم اکثریتی خطوں تاتارستان، بخارستان، چیچنیا اور داغستان میں متعارف کرایا جارہا ہے۔ ان علاقوں میں پروگرام کی کامیابی کی صورت میں اس روس کے دیگر خطوں کے لیے بھی متعارف کرا دیا جائے گا۔
اس سے قبل روس کی پارلیمنٹ نے رواں برس 19 جولائی کو روس کے مسلم اکثریتی خطوں میں آزمائشی بنیادوں پر اسلامک بینکنگ کا آزمائشی پروگرام شروع کرنے کی منظوری دی تھی۔
واضح رہے کہ اسلامی بینکنگ میں قرض دینے یا لینے کی صورت میں سود کے لین دین کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔
روس کیوں اسلامی بینکنگ شروع کر رہا ہے؟
روس میں کم و بیش ڈھائی کروڑ مسلمان آبادی موجود ہے اور حکومت کے حالیہ اقدام سے پہلے بھی یہاں اسلامی مالیاتی ادارے کام کر رہے تھے۔ لیکن یکم ستمبر سے شروع ہونے والا اسلامک بینک کا پروگرام حکومت کی جانب سے اپنی نوعیت کا پہلا قدم ہو گا۔
مبصرین اگرچہ اس اقدام کو ولادیمیر پوٹن کی حکومت کی جانب سے مسلمان آبادی کی حمایت حاصل کرنے کوشش قرار دے رہے ہیں تاہم بعض ماہرین کے خیال میں اسلامی بینکنگ کا بڑھتا ہوا عالمی حجم اور یوکرین جنگ کے باعث روس کو درپیش معاشی مسائل بھی اس کی وجوہ میں شامل ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر اسلامک بینکنگ سیکٹر کی سالانہ شرح نمو چالیس فی صد ہے اور 2025 تک اس کا متوقع حجم تقریباً 77 کھرب ڈالر ہو سکتا ہے۔
روس کی ممتاز ماہر معیشت الویرا کلیمولینا کا کہنا ہے کہ روس میں تیزی سے پھیلتی ہوئی اسلامی بینکنگ کی مارکیٹ میں سرمایہ کاروں اور قرض لینے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے قواعد و ضوابط متعارف کرانا ضروری تھا۔
ماہرین کے مطابق روس میں 2008 کے اقتصادی بحران کے بعد اسلامی بینکنگ کے آغاز پر غور شروع کیا گیا تھا۔ اس وقت روس کے مالیاتی شعبے کو لیکویڈٹی کے مسائل سے نکلنے کے لیے سرمائے کے متبادل ذرائع کی تلاش تھی۔
تاہم روس کو 2014 میں کرائمیا کے غیر قانونی الحاق کے بعد جب مغربی ممالک کی جانب سے اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تو اسلامک بینکنگ متعارف کرانے کی تجویز پر تیزی سے کام شروع ہوا۔
یوکرین جنگ کے بعد روس کو مغربی ممالک کی جانب سے ایک بار پھر اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے۔
روس میں قرض فراہم کرنے والے روس کے سب سے بڑے ’سیبربینک‘ کی صدر ڈیانا گلیوا کا کہنا ہے کہ ان اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے روس اور مغرب کے درمیان فاصلہ بڑھا اور ماسکو مشرقی ممالک کے زیادہ قریب ہوا ہے۔ وہ اسلامک بینکنگ کے پروگرام کو بھی اسی جانب قدم قرار دیتی ہے۔
ان کے مطابق روس کے مسلم اکثریتی علاقوں کو خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ اور شریعہ فریم ورک کے خواہاں دیگر سرمایہ کاروں کے لیے پُر کشش تصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے روس نے ان علاقوں میں تجرباتی طور پر اس پروگرام کا آغاز کیا ہے۔
الویرا کلیمولینا سمیت دیگر ماہرینِ معیشت کا خیال ہے کہ اسلامک بینکنگ کے پروگرام سے روسی معیشت پر غیر معمولی اثرات نہیں ہوں گے۔