سعودی عرب نے پاکستان کے سونے اور تانبے کے ذخائر ریکوڈک منصوبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ تاہم ابھی دونوں ممالک اس حوالے سے کسی حتمی معاہدے پر نہیں پہنچے ہیں۔
ماہرین اس دلچسپی کو جہاں پاکستان کے بین الاقوامی ادائیگیوں کے پُرانے مسئلے سے نمٹنے کے لیے اہم قرار دے رہے ہیں وہیں سعودی عرب کی بلوچستان میں سرمایہ کاری کو اسٹریٹجک اہمیت کا حامل بھی سمجھا جا رہا ہے۔
وزیرِاعظم کے مشیر برائے خصوصی سرمایہ کاری کونسل محمد جہانزیب خان نے اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا کہ منصوبے میں حکومت کے حصص کی ویلیو ایشن اس سال کے آخر تک مکمل ہو جائے گی جس کے بعد ریاض کے ساتھ اس معاملے پر حتمی بات چیت ممکن ہوسکے گی۔
اطلاعات کے مطابق سعودی عرب کا پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (پی آئی ایف) منصوبے میں پاکستانی حکومت کے تمام شئیر خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے جو 25 فی صد ہیں۔
اس منصوبے پر کینیڈا کی کان کن کمپنی بیرک گولڈ 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتی ہے۔
اگست میں بیرک گولڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مارک بریسٹو نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا تھا کہ وہ اس منصوبے میں سعودی عرب کو ساتھ ملانے کا بھی خواہاں ہے۔
اس سے قبل سعودی عرب کی کان کنی کی کمپنی 'معدن' اور 'بیرک گولڈ جدہ' میں بھی تانبے کے ایک منصوبے پر مشترکہ طور پر کام کررہے ہیں۔
نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے بھی عرب نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ دسمبر تک سعودی عرب سے اس سے متعلق ڈیل کو حتمی شکل دینے کے لیے پُر امید ہیں۔
تاہم اب تک حکام کی جانب سے اس حوالے سے کمرشل ڈیل کے بارے میں کوئی بھی معلومات سامنے نہیں آسکی ہیں۔ لیکن معلوم ہوا ہے کہ اس حوالے سے بین الاقوامی فنانشل ایڈوائزر کی تعیناتی کا عمل جاری ہے۔
سعودی عرب کی جانب سے اس منصوبے میں سرمایہ کاری کا اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آ رہا ہے جب پاکستان اپنی تاریخ کے ایک اور بڑے معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور اسے بین الاقوامی ادائیگیوں میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
سعودی عرب کا کردار
کچھ عرصے قبل ہی پاکستان ڈیفالٹ کے خطرے کے انتہائی قریب سے بمشکل نکل پایا ہے۔ یہ سرمایہ کاری پاکستان میں انتہائی ضروری غیر ملکی زرِمبادلہ (فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ) لانے کا باعث بن سکتی ہے۔
سرمایہ کاری سے متعلق امور کے ماہر عبدالرحمٰن خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چلین پارٹنر اینٹوفاگاسٹا کے ریکوڈک منصوبے سے نکل جانے کے بعد سے ہی سعودی عرب نے اس منصوبے میں گہری دلچسپی ظاہر کرنا شروع کردی تھی۔
اُن کے بقول اس منصوبے کو ممکنہ طور پر بلوچستان کے جیو پولیٹیکل طور پر حساس علاقے کو معاشی طور پر مستحکم کرنے میں سعودی عرب کا کردار اہم سمجھا جارہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تانبے کی عالمی قلت اور سعودی شمولیت سے ممکنہ استحکام کے ساتھ، اگر ریکوڈک پراجیکٹ آگے بڑھتا ہے تو بیرک گولڈ اس منصوبے میں مزید ترقی کے لیے بھی تیار ہو سکتا ہے۔
'پاکستان کی معاشی مشکلات کم ہو سکتی ہیں'
معاشی تجزیہ کار عبدالعظیم کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ یقینی طور پر اسلام آباد کو درپیش طویل معاشی بحران اور ادائیگیوں کے توازن کے مسئلے کو ٹالنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔
اُن کے بقول پاکستان کی نئی تشکیل شدہ باڈی اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) نے کان کنی کے شعبے پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
اس کا مقصد ضلع چاغی میں مختلف منصوبوں سے اگلے پانچ سالوں میں تانبے کی پیداوار میں آٹھ گنا اضافہ کرنا ہے۔
ریکوڈک منصوبے میں 50 حصہ بیرک گولڈ کمپنی اور 25 فی صد وفاقی حکومت جب کہ 25 فی صد بلوچستان حکومت کے پاس ہیں۔ وفاقی حکومت اپنے تمام 25 فی صد شئیرز سعودی کمپنی کو فروخت کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
دوسری جانب سعودی عرب اپنی معیشت کو مزید وسعت دینے اور تیل کے بجائے متبادل ذرائع سے آمدن بڑھانے کے لیے نہ صرف پاکستان بلکہ برازیل میں بھی ایسی سرمایہ کاری شروع کرچکا ہے۔
ماہرین تانبے کو ماضی اور مستقبل کی دھات قرار دیتے ہیں۔ دنیا کو 2050 تک خالص صفر کاربن کے عزائم کو حاصل کرنے کے لیے درکار برقی نقل و حمل اور بجلی کے وسائل کو پورا کرنے کے لیے کافی مقدار میں تانبے کی ضرورت ہے۔
سن 2021 میں، دنیا نے 25 ملین ٹن سے زیادہ تانبا استعمال کیا اور یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ تانبے کی مانگ دگنا ہو سکتی ہے۔ اگلی تین دہائیوں میں تانبے کو اس کی کسی بھی خاصیت کو کھونے کے بغیر ری سائیکل بھی کیا جا سکتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق تانبا تقریباً 11 ہزار سال سے انسانوں کے زیرِ استعمال رہا ہے اور انسانی تہذیب کے ہر مرحلے پر ہی موجود رہا ہے۔
یہ پہلی دھاتوں میں سے ایک تھی جس کی کان کنی کی گئی اور اوزاروں، ہتھیاروں اور زیورات کی شکل دی گئی۔ حالیہ دنوں میں، تانبا جدید معاشرے کا ایک لازمی جزو بن گیا ہے۔
سرمایہ کاری سے جُڑے ماہرین کا کہنا ہے کہ سرمایہ کاری کے پورٹ فولیو میں سونا شامل کرنا خطرے کو متنوع بنانے میں مدد کرتا ہے۔ سونے کی کارکردگی اکثر اسٹاک، بانڈز اور ریئل اسٹیٹ سے آزادانہ طور پر حرکت کرتی ہے جس سے سرمایہ کاری کے پورٹ فولیو کا مجموعی اتار چڑھاؤ کم ہوجاتا ہے۔