سری لنکا کی معیشت کیوں تباہ ہوئی اور آگے کیا ہوسکتا ہے؟

سری لنکا میں حالیہ دنوں میں احتجاج کا ایک منظر

سری لنکا کے صد رگوتابایا راجاپکسے اور وزیرِاعظم رنیل وکرما سنگھے دونوں ملک میں بگڑتے ہوئے معاشی حالات کے خلاف مظاہرین کے دباؤ میں مستعفی ہونے پر راضی ہوگئے ہیں۔

مظاہرین نے ہفتے کو ان کی رہائش گاہوں پر دھاوا بول دیا تھا اور ان میں سے ایک کو آگ لگا دی تھی۔ اس سے قبل سری لنکا کے وزیر اعظم یہ اعتراف کرچکے تھے کہ ملک کی معیشت تباہ ہوگئی ہے اور حکومت کے پاس خوراک اور ایندھن درآمد کرنے کے لیے بھی رقم نہیں رہی۔

تازہ ترین حالات بتاتے ہیں کہ جنوبی ایشیا ئی ملک کے لوگ کھانا چھوڑ رہے ہیں کیونکہ انہیں خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔

بحران کتنا سنگین ہے؟

سری لنکا کی حکومت 51 ارب ڈالر کی مقروض ہے اور وہ اپنے قرضوں پر سود کی ادائیگی کرنے سے قاصر ہے، قرضے کی رقم تو ایک طرف، سیاحت جو کہ اقتصادی ترقی کا ایک اہم ستون ہے، کرونا وبا اور 2019 میں دہشت گردانہ حملوں کے بعد حفاظتی خدشات کی وجہ سے بکھر گئی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک کی کرنسی 80 فی صد تک گر گئی ہے، جس سے درآمدات مزید مہنگی ہو گئی ہیں۔پہلے ہی سے بے قابو افراط زر کی شرح بڑھ رہی ہے جب کہ خوراک کے اخراجات میں 57 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔

نتیجتاً ملک دیوالیہ پن کی طرف بڑھ رہا ہے، اور اس کے پاس پیٹرول، دودھ، کھانا پکانے کی گیس اور ٹوائلٹ پیپر درآمد کرنے کے لیے شاید ہی کوئی رقم ہو۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان کی صورت حال سری لنکا جیسی کیوں نہیں ہوگی؟

سیاسی بدعنوانی بھی ایک مسئلہ ہے۔ اس نے نہ صرف ملک کی دولت کو ضائع کرنے میں اپنا کردار ادا کیا بلکہ یہ سری لنکا کے لیے کسی بھی مالیاتی بچاؤ کو پیچیدہ بناتا ہے۔

واشنگٹن میں سینٹر فار گلوبل ڈویلپمنٹ کے پالیسی فیلو اور ماہر اقتصادیات انیت مکھرجی نے کہا کہ آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک کی طرف سے کوئی بھی امداد سخت شرائط کے ساتھ آنی چاہیے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ امداد کا غلط انتظام نہ ہو۔

پھر بھی، مکھرجی کہتے ہیں کہ سری لنکا دنیا کی مصروف ترین شپنگ لین میں سے ہے، اس لیے اس طرح کے اسٹرٹیجک اہمیت کے حامل ملک کو گرنے دینا کوئی آپشن نہیں ہے۔ ایسے ملک کے لیے یہ حالات ایک تلخ حقیقت ہیں جس کی معیشت بحران سے پہلے تیزی سے ترقی کر رہی تھی۔

بحران عام لوگوں کو کیسے متاثر کر رہا ہے؟

سری لنکا زمین کے خط استوا کے گرد ہونے کی وجہ سے تقریباً پورا سال ہرا بھرا رہتا ہے اور عام طور پر کھانے کی اشیا کی کمی نہیں ہوتی، لیکن پھر بھی اب ملک کے لوگ بھوکے رہ رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ تقریباً 10 میں سے نو خاندان کھانا چھوڑ رہے ہیں یا بصورتِ دیگر اپنی خوراک کو دیرتک چلانے کے لیے بخیل ہو رہے ہیں، جب کہ 30 لاکھ ہنگامی انسانی امداد حاصل کر رہے ہیں۔

ادھر ڈاکٹروں نے سازوسامان اور ادویات کی اہم فراہمی حاصل کرنے کی کوشش کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا ہے۔ سری لنکا کے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کام کی تلاش میں بیرون ملک جانے کے لیے پاسپورٹ کی تلاش میں ہے۔ سرکاری ملازمین کو تین ماہ کی اضافی چھٹی دی گئی ہے تاکہ وہ اپنا کھانا خود اگانے کو وقت دیں۔

مختصر یہ کہ لوگ مشکلات کا شکار ہیں اور حالات کو بہتر کرنے کے لیے بے چین ہیں۔

آخر معیشت اس قدر ابتری کا شکار کیوں ہے؟

اس سلسلے میں ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ یہ بحران برسوں کی بدانتظامی اور بدعنوانی جیسے مسائل سے پیدا ہوا ہے۔ عوام کا زیادہ تر غصہ صدر راجا پکسے اور ان کے بھائی سابق وزیر اعظم مہندا راجا پکسے پر مرکوز ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

سری لنکا میں سالِ نو، ملک دیوالیہ، لوگ سڑکوں پر

گزشتہ کئی برسوں سے حالات ابتر ہیں۔ 2019 میں، گرجا گھروں اور ہوٹلوں میں ایسٹر کے خودکش بم دھماکوں میں 260 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ اس نے ملکی سیاحت کو تباہ کر دیاجو کہ زرمبادلہ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

ملک میں بڑے بنیادی انفرااسٹرکچر کے منصوبوں کے لیے غیر ملکی قرضے بڑھنے کے بعد حکومت کو اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے کی ضرورت تھی، لیکن اس کے بجائے راجا پاکسے نے سری لنکا کی تاریخ میں ٹیکسوں کی سب سے بڑی کٹوتیوں پر عمل کیا ۔

ٹیکس میں کٹوتیوں کو حال ہی میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ لیکن قرض دہندگان کی جانب سے سری لنکا کی درجہ بندی کو کم کرنے کے بعد اسے مزید رقم لینے سے روک دیا گیا کیوں کہ اس کے غیرملکی ذخائرڈوب گئے تھے۔ پھر وبا کےسیاحت کو ایک مرتبہ پھر سکڑ گئی۔

راجا پکسے نے اپریل 2021 میں اچانک کیمیائی کھادوں کی درآمد پر پابندی لگا دی۔ نامیاتی کاشت کاری کے فروغ نے کسانوں کو حیران کر دیا اور چاول کی اہم فصلوں کو تباہ کر دیا، جس سے قیمتیں زیادہ ہو گئیں۔

زرمبادلہ بچانے کے لیے پرتعیش سمجھی جانے والی دیگر اشیا کی درآمد پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ دریں اثنا، یوکرین کی جنگ نے خوراک اور تیل کی قیمتوں کو بہت زیادہ کر دیا ہے۔ مئی میں مہنگائی 40 فی صد کے قریب تھی اور خوراک کی قیمتوں میں تقریباً 60 فی صد اضافہ ہوا تھا۔


وزیراعظم نے کیوں کہا کہ معیشت تباہ ہو گئی ہے؟

اس کے بعد جون میں وکرما سنگھے نے اپنی وزارت عطمیٰ کی چھٹی مدت کے دواران معیشت کی تباہی کی بات کی تو اس سےمعاشی حالت پر اعتماد کوٹھیس پہنچی اور کسی خاص نئی ترقی کی عکاسی نہیں ہوسکی۔

وزیر اعظم اپنی حکومت کو درپیش مسائل کے حوالے سے تنقید کے تناظر میں عالمی مالیاتی ادارے( آئی ایم ایف) سے مدد مانگتے وقت چیلنجز کو نمایاں کر تے رہے۔ ان کی حکومت کو بہتری کے لیے ناکافی اقدامات کرنے پر تنقید کا سامنا تھا۔

وزارت خزانہ نے کہا کہ سری لنکا کے پاس قابل استعمال غیر ملکی ذخائر میں صرف 25 ملین یعنی ڈھائی کروڑ ڈالر ہیں۔ ان حالات میں اس کے لیے اربوں ڈالر کا قرضہ ادا کرنا تو کجا، ملکی درآمدات کی ادائیگی کرنا ممکن نہ تھا۔

Your browser doesn’t support HTML5

سری لنکا: پلاسٹک کا کچرا کھانے سے ہاتھیوں کی ہلاکت

اس دوران سری لنکا کا روپیہ قدر میں کمزور ہو کر تقریباً 360 امریکی ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ اس سے درآمدات کی لاگت اور بھی مشکل ہو گئی۔

سری لنکا نے 2026 تک ادا کیے جانے والے 25 ارب ڈالر میں سے رواں سال تقریباً 7 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی روک دی ہے۔

حکومت بحران پر قابو پانے کے لیے کیا کر رہی ہے؟

معاشی دلدل سے نکلنے کے لیےسری لنکا نے اب تک بنیادی طور پر بھارت کی طرف سے 4 ارب ڈالر کی رقم پر انحصار کیا ہے۔ایک بھارتئ وفد جون میں دارالحکومت کولمبو میں مزید امداد پر بات چیت کے لیے آیا تھا۔ لیکن وکرما سنگھے نے بھارت کی جانب سے سری لنکا کو طویل عرصے تک چلانے میں مدد کی توقع کے خلاف خبردار کیا۔

ان حالت کو بیان کرتے ہوئے کولمبو ٹائمز میں جون کی ایک سرخی کچھ ایسے تھی:"سری لنکا نے آئی ایم ایف سے آخری امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔" حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آؤٹ پلان پر بات چیت کر رہی ہے، اور وکرما سنگھے نے کہا ہے کہ وہ اس موسم گرما کے آخر میں ابتدائی معاہدے کی توقع رکھتے ہیں۔

سری لنکا نے چین سے بھی مزید مدد مانگی ہے۔ دیگر حکومتوں جیسے امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا نے چند سو ملین ڈالر کی امداد فراہم کی ہے۔

اس سے قبل جون میں اقوام متحدہ نے دنیا بھر میں سری لنکا کے لیے امداد کے لیے عوامی اپیل کا آغاز کیا تھا۔ لیکن اب تک متوقع فنڈنگ 6 ارب ڈالر کے ہدف سے کوسوں دور ہے۔ ملک کو اگلے چھ ماہ چلانے کے لیے چھ ارب ڈالر کی بڑی رقم کی ضرورت ہے۔

وکرما سنگھ نے 'اے پی' کو ایک حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کا ملک روس سے رعایتی قیمت پر تیل خریدنے پر غور کرے گا۔

سری لنکا کی صورت حال خطے کے لیے کتنی اہم ہے؟

واشنگٹن میں پولیٹیکٹ تحقیقی ادارے کے چیف تجزیہ نگار عارف انصار کہتے کہ سری لنکا کی صورت حال جنوبی ایشیا اور بین الااقوامی دونوں حوالوں سے بہت اہم ہے اور اس کے خطے پر اقتصادی، سیاسی اور سلامتی کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

انصار ،جن کا ادارہ جنوبی ایشی اور مشرق وسطیا پر تحقیق کرتا ہے ، کہتے ہیں کہ سری لنکا کے بھارت او ر چین دونوں سے تعلقات ہیں جبکہ پاکستان کے ساتھ اس کے دفاعی تعلقات بھی بہت اہم ہیں۔

وہ سمجھتے ہیں کہ اس سارے تناظر میں سری لنکا کے غیر یقینی صورت حال سے نکلنے میں بہت سے عوامل کارفرما ہوں گے۔

" ایک طرف تو یہ دکھنا ہوگا کہ سری لنکا کی قیادت اب کن ہاتھوں میں جائے گی۔ کیا نئی قیادت اس نازک وقت میں قوم کوصحیح سمت کی جانب لے جانے کے لیے وہ اقتصادی اقدامات کرپائے گی جن کا عالمی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف تقاضہ کرے گا۔"

دوسرا یہ کہ تجزیے ظاہر کرتے ہیں کہ سری لنکا کی امداد کا جہاں تک تعلق ہے تو اس میں بڑی طاقتوں کے درمیان مقابلہ بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔

مثال کے طور پر ، عارف انصار کہتے ہیں ، چین نے بندرگاہ کی صورت میں سری لنکا میں اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انییشی ایٹو کے سسلسلے میں بھاری سرمایہ کر رکھی ہے لیکن ابھی تک بیجنگ نے کولمبو کی اس موڑ پر کسی بڑے انداز میں مدد کرنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا۔

دوسری طرف امریکی حکام نے سری لنکا سے حالیہ مہینوں میں رابطے کیے ہیں لیکن ابھی واشنگٹن نے بھی اس سلسلے میں کوئی واضح اشارہ نہیں دیا۔

"چاہے جو بھی ہو سری لنکا کی نازک صورت حال صاف ظاہر کرتی ہے کہ امداد کرے والے ادارے یا ممالک سری لنکا سے چاہیں گے کہ وہ معیشت کی بحالی کے لیے ایسے اقدامات کرے جن سے یقین ہوکہ امدادی رقم یہ قرض کس مقصد کے لیے اور کیسے استعمال ہوں گے۔لہذا سری لنکن عوام کی بہتری اور حکومت کی طرف سے ملک کے لیے فیصلے کرنے کی ملک کے لیے اور خطے کے لیے بہت اہمیت ہوگی۔"

(اس تحریر میں شامل کچھ مواد ر خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)