طبع شدہ خفیہ کاغذات عراق کی جنگ کی جھلکیوں پر مشتمل ہیں۔ تقریباً چار لاکھ صفحات میں جنہیں بہت سے تجزیہ کاروں اور صحافیوں نے جنگ کے روزنامچے کا نام دیا ہے عراقی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں قیدیوں پر ظلم و زیادتی کے بہت سے واقعات درج ہیں۔
وکی لیکس کے کاغذات کے مطابق قیدیوں کو کوڑے لگائے گئے اور انہیں مارا پیٹا گیا۔ ان میں سے بعض واقعات عراقی فورسز کو تربیت دینے والے امریکی سپاہیوں کے سامنے ہوئے اور اُنھوں نے قیدیوں کو بچانے کی کوشش کی لیکن ایسا بھی ہوا کہ وہ کھڑے دیکھتے رہے۔
عراق کے لیے نیشنل سکیورٹی کونسل کے سابق ڈائریکٹر چارلس ڈیینی Charles Dunne کہتے ہیں کہ ان کاغذات میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اس وقت کے سرکاری عہدے داروں کے علم میں نہ آئی ہو۔ اس قسم کے بہت سے واقعات امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ میں درج ہیں اورانسانی حقوق کے پرائیویٹ گروپوں نے ان کی تفتیش بھی کی ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان کاغذات سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ عراق میں اس قسم کے تشدد کو ختم کرنا کتنا مشکل تھا‘‘۔
تشدد ہمیشہ سے عراق کے سیاسی کلچر کا حصہ رہا ہے۔ آپ لوگوں کو تیزاب سے جلانے کی بات کرتے ہیں۔ مجھے کویتی قیدیوں کی وہ تصویریں یاد ہیں جنہیں خلیج کی جنگ میں صدام حسین کے کویت پر حملے کے بعد تیزاب سے جلایا گیا تھا۔ اس چیز کو ختم کرنا بہت مشکل ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس سلسلے میں اب تک جو کچھ کیا گیا ہے ہم اس سے زیادہ کچھ اور کر سکتے ہیں‘‘۔
قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کے اسکینڈل میں امریکہ بھی ملوث ہوا جب 2004ء میں بغداد کے ابو غریب قید خانے میں امریکی گارڈز نے قیدیوں کے ساتھ زیادتی کی۔ چارلس کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہم نے سخت کوشش کی کہ امریکیوں کی طرف سے بدسلوکی نہ ہونے پائے اور ہم نے عراقی پولیس اور فوج کے زیرِ تربیت یونٹوں کو بھی اس قسم کی حرکتوں سے باز رہنا سکھایا۔ ابوغریب کے اسکینڈل کے بعد ہم نے عراقیوں کی تربیت میں قانون کی بالا دستی اور انسانی حقوق کے اجزا کو شامل کرلیا۔
چارلس کہتے ہیں کہ ان کاغذات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی سپاہی اس قسم کے واقعات سے کتنے پریشان ہوئے تھے اور بعض کیسوں میں انھوں نے عراقیوں کو روکنے کی کوشش کی۔ بعض دوسرے کیسوں میں ان کے پاس اتنی افرادی قوت نہیں تھی کہ وہ خود ان کی تفتیش کر سکتے۔
امریکی جنرل جارج کیسی جنھوں نے عراق میں اتحادی فوجوں کی کمان کی تھی اور جو آج کل آرمی کے چیف آف اسٹاف ہیں، کہتے ہیں کہ امریکی فوجیوں نے ظلم و زیادتی کے واقعات سے چشم پوشی نہیں کی۔
ہماری پالیسی ہمیشہ یہی رہی کہ جب امریکی سپاہیوں نے قیدیوں کے ساتھ بد سلوکی ہوتے دیکھی انھوں نے اسے روکا اورامریکی اعلیٰ افسروں کو اور عراقی فوجی افسروں کو فوری طور پر اس کی اطلاع دی۔
اور جیسا کہ وکی لیکس کے کاغذات سے ظاہر ہوتا ہے ایسے واقعات کی رپورٹیں کی جاتی تھیں۔ لیکن بعض کاغذات میں ایک حکم کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے مطابق اگر امریکی فورسز ایسے واقعات میں ملوث نہ ہوں تو مزید تفتیش کی ضرورت نہیں ہے سوائے اس کے کہ کسی اعلٰی افسر کی طرف سے اس کا حکم دیا گیا ہو۔
یو ایس آرمی وار کالج کے لیری گڈسن کہتے ہیں کہ امریکی فوجیں ایک مخمصے میں گرفتار ہو جاتی ہیں۔ وہ مداخلت کریں یا نہ کریں تاثر یہی ہوگا کہ وہ کسی ایک فریق کی حمایت کر رہی ہیں’’ آپ کچھ کریں یا نہ کریں آپ کو برائی ہی ملے گی۔ مثلاً اگر آپ کا واسطہ قید خانے کی ایسی سکیورٹی فورس سے ہے جو شیعوں پر مشتمل ہے اوراگر وہ کسی سنّی قیدی کی ٹھکائی کر رہے ہیں تو اگر آپ مداخلت کرتے ہیں تو کہا جائے گا کہ آپ سنیوں کی طرفداری کر رہے ہیں۔ اگر آپ مار پیٹ کو روکنے کے لیے مداخلت نہیں کرتے تو کہا جائے گا کہ آپ شیعوں کے طرفدار ہیں۔غرض دونوں طرح سے آ پ مشکل میں ہوتے ہیں‘‘۔
اب امریکی فوجیں افغانستان میں ہیں اور عراق کی طرح یہ ملک بھی نسلی، فرقہ وارنہ اور قبائلی اختلافات میں گھرا ہوا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امریکہ اور نیٹو کے فوجی افغان پولیس اور فوج کے یونٹوں کو بتدریج اپنے ملک کی سیکیورٹی سنبھالنے کی تربیت دے رہے ہیں اس بات کا امکان موجود ہے کہ وکی لیکس کے کاغذات سےعراق کے جو مسائل سامنے آئے ہیں وہ افغانستان میں اور زیادہ کثرت سے پیش آئیں گے۔
معلومات کو خفیہ رکھنے کے مخالف گروپ وکی لیکس نے خفیہ کاغذات کی جو تازہ ترین قسط جاری کی ہے اس میں کوئی حیران کُن معلومات نہیں ہیں۔ لیکن تجزیہ کار کہتےہیں کہ ان میں ایسے بہت سے واقعات کا ذکر ہے جن میں عراقی سیکورٹی فورسز کو اکثر انہیں تربیت دینے والے امریکی فوجیوں کے سامنے ظلم و زیادتی کرتے دکھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کاغذات کے مطابق عراق میں سویلین اموات کی تعداد اس سے زیادہ ہے جو پہلے بیان کی گئی تھی۔