وکی لیکس کی جانب سے اس سال کے دوران امریکی سفارتکاری ،عراق اور افغانستان کے بارے میں امریکی میڈیا نے جہاں ایک طرف دستاویزات میں موجود مواد کے بارے میں تبصرے کئے وہیں دوسری طرف اس سے متعلق کچھ ثانوی اشوز پر بحث کو جنم دیا۔
اس سال اپریل میں وکی لیکس نے امریکی فوج کی تاریخ میں پہلی بار اس کے فوجی آپریشنز کے بارے میں اتنی بڑی تعداد میں خفیہ دستاویزات کو عام کیا ۔ اور پھر گزشتہ ماہ ایک بار پھرعالمی سیاست اور سفارتکاری کے میدان میں زبردست ہلچل اس وقت مچی جب وکی لیکس نے امریکی سفارتکاروں کے خفیہ پیغامات عام کرنے شروع کئے۔امریکی وزارت خارجہ کو شرمندگی کا سامنا کرنے کے علاوہ دنیا کے کئی اہم رہنماؤں سے معذرت کرنی پڑی۔
لیکن واشنگٹن کے ایک قدامت پسند تھنک ٹینک ہیریٹیج فاؤنڈیشن سے منسلک جنوبی ایشیائی امور کی ماہر لیزا کرٹس کہتی ہیں کہ ان دستاویزات کے سامنے آنے سے ایک مثبت نتیجہ بھی نکلا ہے۔ ‘‘میرا خیال ہے کہ یہاں اس بات پر تنازعہ ہے کہ یہ سفارتی دستاویزات افشا ہونے چاہیے تھے یا نہیں۔ اور شاید یہاں یہ سوچ موجود ہے کہ جو معلومات خفیہ نوعیت کی ہے ان کے خفیہ رہنے کا احترام کیا جائے ۔ لیکن دلچسپ بات ہے کہ اس سارے معاملے کا ایک غیر متوقع نتیجہ یہ نکلا کہ واشنگٹن میں تبصروں میں امریکی سفارتکاروں کے کام کو سراہا گیا ہے۔ ان دستاویزات سے معلوم ہوا کہ سفارتکاروں کو کن مشکل حالات میں یا کئی دفعہ کتنے مشکل ساتھیوں کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔’’
اس سارے معاملے کے دوران یہ بحث بھی جاری ہے کہ حال ہی میں امریکی صحافی باب ووڈ ورڈز کی شائع ہونے والی کتاب Obama’s Warsبھی اسی نوعیت کے خفیہ مواد پر مبنی ہے ۔ اس کے مصنف کو بھی خفیہ دستاویزات تک رسائی ملی۔
دی ہیریٹیج فاؤنڈیشن میں ویکی لیکس کے امریکی سفارتکاری پر اثرات کے بارے میں ایک مذاکرےکے دوران اس سوال پر بھی بحث کی گئی کہ کیا روائتی صحافیوں اور بلاگ لکھنےوالوں میں تمیز کی جانی چاہیے یا نہیں۔ امریکی خارجہ پالیسی امور کے ماہرPaul Rosenzweigکا خیال ہے دونوں میں تفریق ہونی چاہیے۔ ‘‘کیا کانگرس کو تسلیم شدہ صحافیوں اور بلاگ لکھنے والوں میں تفریق کے لئے کوئی لائسنس وغیرہ جاری کرنے کے بارے میں سوچ بچار کرنی چاہئے ۔ میرا خیال ہے ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ مگر یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ صحافیانہ اور غیر صحافیانہ سر گرمیوں میں حدود کا تعین کیا جائے ۔یہ ایک چیلنج ہوگا۔ یہ حد بندی اس طرح سے کرنی ہوگی کہ اظہار رائے کی آزادی بھی قائم رہے جو امریکی معاشرے کا اثاثہ ہے اور اسانج جیسے کسی شخص کو اس حق کے ناجائز استعمال سے بھی روکا جائے۔’’
امریکی انتظامیہ وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کی تیاری کر رہی ہے جبکہ امریکی قانون اظہار رائے کی آزادی کو تحفظ دیتا ہے ۔ کیا وکی لیکس نے جو کچھ کیا وہ آزادئی اظہار کے زمرے میں نہیں آتا اور امریکہ کن بنیادوں پر اسانج کے خلاف مقدمہ چلائے گا۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ابھی تلاش کئے جا رہے ہیں ۔
ایک امریکی قانونی ماہر Cully Stimson کا خیال ہے کہ ایک امریکی جیوری اسانج کے خلاف کارروائی کے لئے کام کر سکتی ہے۔ ‘‘یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ابھی نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتیں ۔ امریکہ کے قانونی نظام میں مقدمہ تیار کرنے کے کئی طریقے ہیں مگر روائتی طریقہ یہ ہے کہ پندرہ سے بیس افراد کی ایک گرینڈ جیوری تشکیل دی جاتی ہے جو ہمیشہ خفیہ طور پر ملتی ہے ۔ موجودہ قوانین کے تحت ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ گرینڈ جیوری بیٹھی ہے یا نہیں۔ مگر میرا خیال ہے کہ شاید ایک گرینڈ جیوری کام کر رہی ہے جو اسانج کے بارے میں ثبوت دیکھ رہی ہے مگر اس کا پتہ تب ہی چلے گا جب ہم کوئی مقدمہ قائم ہوتا دیکھیں گے۔’’
سویڈن کو جولین اسانج زیادتی کے الزامات میں درکار ہیں اور اس نے برطانیہ کو اس کی حوالگی کے لئے درخواست دے رکھی ہے۔اس درخواست کی سماعت کے بعد برطانوی عدالت نے انہیں ضمانت پررہا کر دیا ہے اوروہ وہاں ایک دوست کے ہاں رہائش پذیر ہیں۔
ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ امریکہ اور سویڈن جولین اسانج پر مقدمے چلا پائیں گے یا نہیں مگروکی لیکس کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی اوریہ امکان موجود ہے کہ آئیندہ سال اس حوالے سے انکشافات کا سلسلہ جاری رہے گا۔