افغانستان میں طالبان حکومت نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو دورۂ کابل کی دعوت دی ہے جس کے بعد بعض حلقے یہ توقع کر رہے ہیں کہ وہ پاک، افغان کشیدگی کم کرانے اور تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو مذاکرات پر قائل کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتے ہیں۔
افغان طالبان حکام یا جے یو آئی (ف) کی جانب سے مولانا فضل الرحمٰن کے دورۂ کابل کا شیڈول اور ایجنڈا جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کے تناظر میں ان کے اس دورے کو اہم سمجھا جا رہا ہے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد 2023 میں عسکریت پسندی نے ایک بار پھر پاکستان میں سر اٹھایا ہے۔ پاکستانی حکام کے مطابق رواں برس 1600 سے زائد حملوں میں لگ بھگ ڈھائی ہزار اموات ہوئی ہیں۔ اس صورتِ حال کے باعث پاک افغان تعلقات بھی مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔
جے یو آئی (ف) کے ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغان طالبان کی جانب سے اس حوالے سے بات کی گئی جس کے بعد ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کو پیغام بھیجا گیا۔ اس کے بعد طالبان حکومت کے اسلام آباد میں واقع افغان سفارت خانے کے ناظم الامور سردار شکیب نے مولانا فضل الرحمٰن کی رہائش گاہ پر جا کر انہیں دورۂ افغانستان کی دعوت دی۔
دورۂ کابل کا ایجنڈا کیا ہو سکتا ہے؟
مجموعی طور پر تاثر یہ ہے کہ کابل اور اسلام آباد کے درمیان دُوریوں کو مٹانے کے لیے مولانا فضل الرحمٰن اپنا کردار ادا کریں گے۔ طالبان حکومت کے مرکزی عہدے دار مولانا فضل الرحمٰن سے شناسا ہیں اور ان کی اکثریت دیوبند مکتبِ فکر سے تعلق رکھتی ہے۔
معروف صحافی، محقق اور عسکریت پسندی کے حوالے سے حالیہ پیش رفت پر گہری نظر رکھنے والے احسان ٹیپو محسود کا ماننا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کا یہ دورہ کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "مولانا فضل الرحمٰن کا افغان طالبان پر مذہبی حوالوں سے بھی اثر ہے، پشتون فیکٹر بھی ہے ، پھر وہ پاکستان کی مین اسٹریم پارٹی کے سربراہ ہیں اور افغانستان میں افغان طالبان کی حکومت بننے کے بعد پہلی مرتبہ افغانستان جا رہے ہیں۔"
احسان ٹیپو کا مزید کہنا تھا کہ اطلاعات یہ ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کابل اور اسلام آباد کے درمیان دُوریاں ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی بھی راہ ہموار کریں گے جس میں اس وقت ڈیڈ لاک ہے۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے اس پیش رفت پر کوئی باقاعدہ بیان ابھی تک جاری نہیں کیا گیا۔
حال ہی میں ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک سمیت خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں عسکریت پسندوں کی جانب سے حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ ان حملوں کی ماسٹر مائنڈ ٹی ٹی پی کی وہ قیادت ہے جو اس وقت افغانستان میں ہے۔
دوسری جانب افغان طالبان مسلسل ان واقعات کو پاکستان کا داخلی مسئلہ قرار دے رہے ہیں۔
تو کیا ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات کی کوئی راہ نکل سکتی ہے؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ماضی میں اس طرح کی کوششوں کے کیا نتائج نکلے؟
ماضی میں ہونے والے امن معاہدوں کے کیا نتائج نکلے؟
قبائلی اضلاع اور مالاکنڈ ڈویژن میں اس طرح مختلف اوقات میں عسکریت پسندوں اور حکومتوں کے مابین معاہدات کی ایک تاریخ موجود ہے تاہم لگ بھگ تمام معاہدے ناکامی سے دوچار ہوئے۔
معروف صحافی ناصر داوڑ لگ بھگ تمام امن معاہدوں کے عینی شاہد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امن معاہدے تو بہت ہوئے لیکن بدقسمتی سے کوئی بھی امن معاہدہ پائیدار ثابت نہیں ہوا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "جنوبی وزیرستان شکئی معاہدے سے لے کر شمالی وزیرستان میں ہونے والے معاہدوں میں ہمیشہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کا ایک کردار رہا ہے۔ بیت اللہ محسود اور حافظ گل بہادر تو خود جمیعت کی ذیلی تنظیم کا حصہ رہے ہیں۔"
اُن کے بقول مختلف اوقات میں مختلف معاہدے ناکام ہوئے۔ آخری کوشش عمران خان کے دور میں کی گئی اور اس میں بھی افغان طالبان سہولت کار تھے۔ تاہم بعد ازاں سیٹ اپ تبدیل ہوا اور فریقین نے سخت مطالبات رکھے جس کی وجہ سے بات معاہدے تک نہیں پہنچ پائی۔
Your browser doesn’t support HTML5
سن 2009 میں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی مخلوط حکومت نے مالاکنڈ میں ایک امن معاہدہ کیا۔ تحریکِ نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد نے سوات طالبان کی جانب سے صوبائی حکومت کے ساتھ امن معاہدہ کیا۔
معاہدے کے باوجود سوات طالبان نے بونیر اور شانگلہ کی جانب پیش قدمی کی جو معاہدے کی خلاف ورزی مانی گئی اور پھر سوات میں ایک بھرپور فوجی آپریشن کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق اس بار جے یو آئی (ف) اور افغان طالبان کی جانب سے امن کی کوششیں شروع کی گئی ہیں جس سے لوگ زیادہ توقعات وابستہ کر رہے ہیں۔
ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کتنے کامیاب ہو سکتے ہیں؟
عموماً عسکریت پسندوں کے ساتھ معاہدے زیادہ پائیدار ثابت نہیں ہوئے۔ 2004ء میں ہونے والے جنوبی وزیرستان کے معاہدہ شکئی سے لے کر مالاکنڈ امن معاہدے تک ان معاہدوں کی عمر بہت کم رہی۔ امن معاہدے تو ہو جاتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد ہمیشہ چیلنج رہا ہے۔
احسان ٹیپو محسود کہتے ہیں کہ "یہ مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں، لیکن اس میں مشکلات بھی ہوں گی۔ کچھ لو کچھ دو پر ضرور بات ہو گی۔ حکومت کو اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ایسی بات نہیں ہے کہ ہم بات کریں اور وہ ہتھیار ڈال کر آ جائیں۔"
اُن کے بقول ہم نے پہلے بھی دیکھا ہے کہ ان معاہدوں کے ذریعے طالبان کچھ نہ کچھ حاصل کر لیتے ہیں۔ پچھلی حکومت میں بھی طالبان نے اپنے سو سے زائد ساتھی جیلوں سے چھڑا لیے تھے۔ تو اگر حکومت ان کے ساتھ کچھ لو کچھ دو پر بات کرے تو کامیابی کے امکانات ہیں۔ لیکن اگر حکومت ان کو کچھ نہیں دیتی تو پھر بات نہیں بنے گی۔
ماہرین کے مطابق جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے امن کوششوں کی کامیابی کی امیدیں اس وجہ سے بھی لگائی جا رہی ہیں کہ ایک جانب افغان طالبان پر ان کا گہرا اثر ہے تو دوسری جانب ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود خود بھی دیوبند مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔
ناصر داوڑ کہتے ہیں کہ "ہم نے شمالی وزیرستان میں دیکھا کہ کس طرح جمیعت کے رہنماؤں مولانا نیک زمان اور مولانا دیندار نے امن معاہدوں میں مؤثر کردار ادا کیا۔ پھر اگر دیکھیں تو حکیم اللہ محسود اور ملا فضل اللہ کے علاوہ ٹی ٹی پی کے بانی بیت اللہ محسود سے لے کر آج مفتی نور ولی محسود تک ساری قیادت جے یو آئی (ف) کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں منسلک رہی ہے۔"
Your browser doesn’t support HTML5
اُن کے بقول اسی لیے اگر مولانا فضل الرحمٰن اس سلسلے میں کوئی کردار ادا کریں تو یہ ایک سنجیدہ کوشش ہو گی۔
ماہرین کہتے ہیں کہ یہاں مسئلہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے ٹی ٹی پی کی جانب سے حملوں کی ذمہ داریاں لینے میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس طرح 'تحریکِ جہاد پاکستان' اور 'انصار الجہاد' کے نام سے نئی تنظیمیں اب حملوں کی ذمے داریاں قبول کرتی نظر آتی ہیں۔ اس لیے یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ باقی تنظیمیں اس پیش رفت کو کس طرح دیکھیں گی۔
ٹی ٹی پی کے علاوہ دیگر تنظیمیں بھی کیا امن عمل میں شامل ہوں گی؟
امریکی اتحادی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے دوران ہی دولتِ اسلامیہ (داعش) کی شاخ داعش خراسان نے جنم لے لیا تھا۔ یہ تنظیم نہ صرف افغان طالبان کے لیے خطرے کی شکل میں موجود ہے بلکہ پاکستان میں بھی بعض حملوں کی ذمے داری قبول کر چکی ہے جن میں جے یو آئی (ف) پر حملے بھی شامل ہیں۔
اس طرح ٹی ٹی پی کے برعکس تحریکِ جہاد پاکستان کا کہنا ہے کہ انہوں نے افغان طالبان سمیت کسی کی بیعت نہیں لی گو کہ وہ افغانستان میں امریکی اتحادی افواج کے خلاف لڑے ہیں۔
احسان ٹیپو محسود کہتے ہیں کہ "داعش کی تو بات ہی الگ ہے ان کا تو جہادی دنیا میں کوئی دوست نہیں ہے اور نہ وہ مذاکرات نامی کسی چیز کو مانتے ہیں۔"
اُن کے بقول جہاں تک تحریکِ جہاد پاکستان کی بات ہے تو یہ ٹی ٹی پی کے سابق جہادیوں پر مشتمل ہے ان کے بھی وہی خیالات ہیں اور اسی طرح تنصیبات کو نشانہ بنا رہے ہیں جس طرح ٹی ٹی پی 2018 تک بڑے حملے کرتی رہی ہے۔"
SEE ALSO: پاکستان: حالیہ دہشت گردی میں حافظ گل بہادر گروپ متحرک کیوں؟اُن کے بقول حافظ گل بہادر گروپ بھی ہے۔ ان سب میں ایک قدر مشترک ہے کہ یہ سارے دیو بند مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور ان پر مولانا فضل الرحمٰن کا ایک اثر موجود ہے۔ اس لیے یہ گروپس اتنا بڑا مسئلہ نہیں بنیں گے۔
ناصر داوڑ کہتے ہیں کہ دراصل الگ الگ ناموں سے بننے والے دھڑوں کو مذاکرات میں کچھ لو اور کچھ دو کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ کچھ چیزوں کے بارے میں کہا جائے گا کہ فلاں گروپ نہیں مانتا یا پھر فلاں گروپ کی ڈیمانڈ یہ ہے تاکہ حکومت کے لیے مشکلات ہوں۔"
ناصر داوڑ نے دعویٰ کیا کہ یہ سارے گروپس کابل سے ہی چلائے جا رہے ہیں اور یہ ٹی ٹی پی کا ہی حصہ ہیں۔
خیال رہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت ایسے دعوؤں کی تردید کرتی رہی ہے، طالبان حکام کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
پندرہ اگست 2021 کو افغانستان سے امریکی اتحادی افواج کے انخلا کے بعد ماہرین کے مطابق جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کابل دورہ ہر لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے نہ صرف افغان طالبان کی کھل کر حمایت کی بلکہ ان کے مدارس سے ہزاروں طلبہ نے افغانستان جنگ میں حصہ لیا۔
خطے کے معاملات کو قریب سے دیکھنے والے حلقوں کا ماننا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کا دورۂ کابل نہ صرف پاک افغان تعلقات میں بہتری لانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے بلکہ ٹی ٹی پی کے حوالہ سے بھی کسی نہ کسی حد تک کامیابی کی امید کی جا سکتی ہے۔