ایران گیس پائپ لائن: کیا پاکستان امریکی مخالفت مول لے کر منصوبہ مکمل کرے گا؟

  • ایران کے صدر ابراہیم رئیسی تین روزہ دورۂ پاکستان پر اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔
  • دورے کے دوران دیگر معاملات کے علاوہ ایران، پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر بات چیت کا بھی امکان ہے۔
  • امریکہ نے پاکستان سے کہہ رکھا ہے کہ وہ ایران، پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے میں پیش رفت نہ کرے۔
  • ایران پر عالمی پابندیوں کی وجہ سے امریکہ دیگر ملکوں کو بھی ایران کے ساتھ کاروبار نہ کرنے کا کہتا رہا ہے۔
  • ماہرین کے مطابق ایران، پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ پاکستان کی توانائی ضروریات کے لیے اہم ہے۔

نبیل باری اور ان کا خاندان پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان میں ٹیکسٹائل کے شعبے سے منسلک ہے۔ ان کے ہاں تیار کردہ مال کی بیرون ملک بھی بڑی مانگ ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں سے انہیں بین الاقوامی مارکیٹ میں سبقت برقرار رکھنے کے لیے سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔

اس میں سب سے بڑا چیلنج گیس کی کمی اور پھر سونے پہ سہاگہ اس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا ہے۔ نبیل باری کے مطابق ملز چلانے کے لیے گرڈ سے بجلی مہنگے داموں ملتی ہے جب کہ گیس سے بجلی سستی میسر آ جاتی ہے مگر جب گیس ہی نہ ہو تو پھر بجلی کیسے پیدا کی جائے اور ملز کیسے چلائی جائیں۔

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی معیشت کا پہیہ رواں رکھنے اور توانائی کے حصول کے لیے قدرتی گیس پر زیادہ انحصار ہے۔

لیکن مقامی گیس کے ذخائر کم ہونے کے ساتھ ملک کو گیس کی درآمد کے لیے قیمتی زرِمبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے اور پڑوسی ملک ایران سے گیس کی درآمد کا منصوبہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دورۂ پاکستان کے دوران مختلف امور کے علاوہ مجوزہ گیس پائپ لائن منصوبے پر بھی بات چیت کا امکان ہے۔

نبیل باری کا کہنا ہے کہ گیس کی عدم دستیابی کی وجہ ایک جانب لیکن دوسری طرف ملز میں 700 سے زائد ملازمین کام کرتے ہیں۔ ان کی تنخواہوں کے اخراجات سمیت دیگر اخراجات بھی نکالنے ہوتے ہیں۔ جب کہ گیس کی قیمتوں میں صرف چند برسوں میں 220 فی صد کے لگ بھگ اضافہ ہو چکا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

ایران گیس پائپ لائن منصوبہ پاکستان کے لیے کتنا اہم ہے؟

اُن کے بقول ایسے میں زیادہ پیداواری قیمت کے باعث جب مال بیرونی دنیا میں جاتا ہے تو اس کی قیمت بھارتی، چینی اور بنگلہ دیشی مال سے کہیں زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے سیل میں فرق آتا ہے۔

توانائی کے حصول کے لیے پاکستان کا قدرتی گیس پر کافی زیادہ انحصار ہے اور اس وقت ملک میں تقریبا 48 فی صد توانائی گیس کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔

'پاکستان کو تین ارب کیوبک فٹ یومیہ گیس کی کمی کا سامنا ہے'

ملک میں گھریلو صارفین کی بھی بڑی تعداد انتہائی سستے داموں میں قدرتی گیس استعمال کرتی ہے۔ لیکن اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ آئندہ 10 سے 15 برسوں میں پاکستان میں قدرتی گیس کے معلوم ذخائر ختم ہو چکے ہوں گے۔

ماہر امور توانائی یوسف سعید کا کہنا ہے کہ ایک وقت تھا کہ جب پاکستان اپنی گیس کی ضرورت مقامی طور پر پیداوار ہی سے پوری کر لیتا۔ تھا لیکن اب صورتِ حال مختلف ہے اور گیس کے ذخائر ختم ہو رہے ہیں۔

ملک میں نہ صرف ٹیکسٹائل بلکہ فرٹیلائزر، توانائی، کان کنی، تعمیرات، ہیلتھ کیئر اور اس طرح کی کئی صنعتوں میں گیس کا استعمال عام ہے۔ لیکن پاکستان میں قدرتی گیس کے کم ہوتے ہوتے ذخائر کے باعث یہاں قلت شدید ہوتی جا رہی ہے جس سے نہ صرف صنعتیں بلکہ گھریلو صارفین بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی گیس کی ضرورت چھ ارب کیوبک فٹ یومیہ ہے جب کہ مقامی پیداوار اب صرف تین ارب کیوبک فٹ رہ گئی ہے اور طلب اور رسد کے اس فرق کو پورا کرنے کے لیے آر ایل این جی اور ایل پی جی درآمد کرنی پڑتی ہے جو مہنگے داموں میسر آتی ہے یا پھر گیس کی لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آٖف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی تیار کردہ ایک رپورٹ کے مطابق گیس دنیا بھر میں استعمال ہونے والی توانائی کا تیسرا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کی کھپت میں پاکستان میں گیس کی کھپت کا حصہ ایک فی صد سے بھی کم ہے۔ اس وقت پاکستان اپنی ضرورت کی 44 فی صد گیس درآمد کر رہا ہے جب کہ 56 فی صد مقامی وسائل سے حاصل کی جا رہی ہے۔

لیکن آبادی میں تیزی سے اضافے اور بجلی کی پیداوار میں گیس کا استعمال زیادہ ہونے کی وجہ سے گیس کی طلب بڑھتی جارہی ہے۔ دوسری جانب ملک میں گیس کی تلاش اور پیداوار میں بھی کمی آئی ہے۔

سال 1952 میں بلوچستان میں سوئی کے مقام سے گیس کی زبردست دریافت کے بعد گیس کی ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کو وسعت دی گئی۔

سوئی گیس سے فائدہ اٹھانے والے زیادہ تر شہروں میں مقیم گھریلو صارفین ہیں جن کی کُل تعداد 28 فی صد بنتی ہے۔ لیکن دوسری جانب اس سے صنعتیں اور دیہات میں رہنے والی آبادی شدید متاثر ہو رہی ہے اور وہ مقامی گیس کے مقابلے میں درآمد کی گئی مہنگے داموں گیس خریدنے پر مجبور ہیں۔

گیس درآمد کرنے کا منصوبہ 'تاپی' کہاں تک پہنچا؟

پاکستان نے توانائی کی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ماضی میں دو ملکوں سے گیس درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس مقصد کے لیے پاکستان، ترکمانستان سے افغانستان اور بھارت جانے والی گیس پائپ لائن معاہدے میں شامل ہوا جسے 'تاپی' بھی کہا جاتا ہے۔ تقریباً 1800 کلومیٹر لمبی مجوزہ پائپ لائن کے ذریعے سالانہ 33 بلین مکعب میٹر قدرتی گیس ترکمانستان سے افغانستان، پاکستان اور بھارت تک پہنچائی جانی ہے جس کا تخمینہ آٹھ ارب امریکی ڈالر ہے۔

اس منصوبے کا مقصد علاقائی تجارت کو فروغ دینے کے ساتھ خطے میں اقتصادی نمو کو فروغ دینا بتایا گیا ہے جو متعلقہ فریقوں کے معاشی مفادات کے علاوہ علاقائی استحکام اور سلامتی کے لیے بھی معاون ثابت ہو گا۔ لیکن افغانستان میں امن و امان کی خراب صورتِ حال اور وہاں سیاسی حکومت کی عدم موجودگی کے باعث یہ منصوبہ مسلسل تاخیر کا شکار ہے۔ فی الحال اس کے جلد مکمل ہونے کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔

ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے میں اب تک کیا ہو چکا ہے؟

پاکستان نے گیس درآمد کرنے کے لیے دوسرا معاہدہ ایران سے کیا تھا جس کے پاس روس کے بعد دنیا کے سب سے زیادہ گیس کے دریافت شدہ ذخائر ہیں۔

اس معاہدے پر سب سے پہلے 1994 میں بات ہوئی تھی جس میں ایران سے پاکستان اور پھر بھارت تک گیس پائپ لائن بچھانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ لیکن 2008 میں مبینہ امریکی دباؤ کے بعد بھارت کے اس منصوبے سے نکل جانے کے بعد یہ پاکستان اور ایران کے درمیان دو طرفہ منصوبہ رہ گیا تھا۔

SEE ALSO: بیلسٹک میزائل پروگرام کے 'سپلائرز' پر امریکی پابندیاں؛ پاکستان پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟

مارچ 2010 میں پاکستان اور ایران نے ایران پاکستان گیس پروجیکٹ پر اتفاق رائے کر لیا اور مارچ 2013 میں اس منصوبے پر سرکاری طور پر کام کا آغاز بھی کردیا گیا۔

منصوبے کے تحت ایران نے اپنے پارس انرجی اکنامک زون سے پاکستانی سرحد تک کوئی 1100 کلو میٹر طویل پائپ لائن کا کام مکمل کر لیا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق اس پر ایرانی حکومت کے دو ارب ڈالر کی لاگت آئی ہے۔ تاہم پاکستان نے اب تک اس پر کام شروع ہی نہیں کیا ہے۔

ابتدائی طور پر پاکستان کے اندر 780 کلو میٹر طویل گیس پائپ لائن بچھائی جانی تھی۔ لیکن 2019 میں فیصلہ کیا گیا کہ پہلے مرحلے میں گوادر میں 80 کلومیٹر پائپ لائن بچھائی جائے گی لیکن اس پر کام بھی بر برسوں سے تاخیر کا شکار ہے۔

اس منصوبے کی تکمیل کو پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ یوسف سعید کا کہنا ہے کہ اس کا ایک اثر یہ ہو گا کہ ہمیں گیس سستی ملے گی اور دوسرا ہمیں مسلسل گیس میسر آ سکے گی۔

Your browser doesn’t support HTML5

ایران کے صدر کا دورۂ پاکستان کتنا اہم ہے؟

ایران سے گیس درآمد کرنے میں رکاوٹ مالی ہے یا امریکی پابندیوں کے خدشات ہیں؟

ایران سے گیس کے حصول میں پاکستانی حکام کی جانب سے کام شروع نہ کرنے میں رکاوٹ امریکہ کی ایران پر عائد معاشی پابندیوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔

امریکی حکومت اس منصوبے کی اعلانیہ مخالفت بھی کر چکی ہے۔ امریکی محکمۂ خارجہ نے مارچ کے آخر میں کہا تھا کہ وہ ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے پائپ لائن کی تعمیر کے پاکستان کے منصوبے کی حمایت نہیں کرتا۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے ایران سے توانائی درآمد کرنے پر اسلام آباد کو اس منصوبے کو آگے بڑھانے پر خبردار کیا تھا۔ ملر کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ کاروبار کرنے سے کوئی بھی ملک امریکی پابندیوں کا شکار ہونے کے خطرہ میں ہوتا ہے۔ اس لیے ایران سے تجارت میں احتیاط کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی انرجی سیکیورٹی کا ایک اہم عنصر ایران پاکستان گیس پائپ لائن ہے: ترجمان دفتر خارجہ

لیکن پاکستان اس مخالفت کے باوجود بھی گیس پائپ لائن منصوبے کو اب مکمل کرنا چاہتا ہے۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی انرجی سیکیورٹی کا ایک اہم عنصر ایران پاکستان گیس پائپ لائن ہے۔ اس پائپ لائن پر دونوں ممالک کے معاہدے کافی پہلے ہوئے تھے۔

اُن کے بقول اس پائپ لائن کی تعمیر کا بقیہ کام شروع کیا جائے گا اور اس کی تعمیر چوں کہ پاکستانی سرزمین پر ہو رہی ہے تو اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت کسی دوسرے ملک سے بات چیت کا موقع ابھی نہیں آیا۔

کئی ماہرین کا خیال ہے کہ ایران سے پاکستان کو گیس کا حصول اس قدر آسان نہیں ہو گا بلکہ اس میں کئی رکاوٹیں حائل ہو سکتی ہیں۔

یوسف سعید کے مطابق اگر پاکستان گیس پائپ لائن بچھا بھی لے تب بھی ان کا نہیں خیال کہ پاکستان جلد اس منصوبے کے تحت گیس حاصل کر سکتا ہے کیوں کہ اس میں امریکی پابندیاں حائل ہوسکتی ہیں۔

ایران کے صدر پیر کو تین روزہ سرکاری دورے پر اسلام آباد پہنچے ہیں۔

'پاکستان کو امریکہ کو یہ بتانا چاہیے کہ یہ منصوبہ پاکستان کے لیے اہم ہے'

معاشی تجزیہ کار دل آویز احمد کا خیال ہے کہ پاکستان کو امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اس منصوبے کی تکیمل پاکستان کی توانائی کی ضروریات کے لیے اہمیت کی حامل ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ترکمانستان سے گیس کی درآمد والے منصوبے پر بھی تیزی سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تاکہ پاکستان کسی تنازع کا شکار بھی نہ ہو اور ضروری بین الاقوامی حمایت سے بھی محروم ہوئے بغیر اپنی توانائی کی ضروریات پورے کر لے۔

منصوبہ ترک کرنے کی صورت میں 18 ارب ڈالر کا جرمانہ یا منصوبہ مکمل کرنے پر امریکی ناراضگی

مبصرین کے مطابق پاکستان اس وقت دو دھاری تلوار پر کھڑا ہے۔ اگر پاکستان امریکہ کو منانے میں ناکام رہا اور گیس پائپ لائن پر کام ایسے ہی رُکا رہا تو اسے اندرونی طور پر طلب بڑھنے کے باعث معاشی مشکلات اور مزید عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دوسری جانب ایران کو بطور جرمانہ 18 ارب ڈالر کے لگ بھگ رقم بھی ادا کرنا ہو گی جس کے لیے تہران نوٹس بھی جاری کر چکا ہے۔ پاکستان کی سفارتی کوششوں ہی سے وہ عالمی ثالثی ٹربیونل میں جانے سے اب تک باز رہا ہے لیکن ایسا ایک وقت تک ہی ممکن دکھائی دے رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق اگر یہ جرمانہ عائد ہو گیا تو یہ پاکستان کی کمزور معیشت کے لیے کسی بھونچال سے کم نہیں ہو گا۔ اسی لیے ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان، امریکی مخالفت کے باوجود اب اس منصوبے کو جلد مکمل کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے وقت آنے پر امریکی حکام سے بھی استثنیٰ کے لیے بات کرے گا۔

لیکن نبیل باری جیسے کئی ٹیکسٹائل ملز مالکان یہ سوال اٹھاتے نظر آ رہے ہیں کہ اگر ایران سے بھارت اور چین جیسے دیگر ممالک اپنی توانائی کے لیے خام تیل یا گیس خرید رہے ہیں اور یوکرین جنگ کے باوجود روس سے یورپی ممالک گیس خرید رہے ہیں تو پاکستان کو ایران سے ایسا کرنے سے کیوں روکا جا رہا ہے؟

ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت کو امریکہ کو اس پر قائل کرنا ہو گا ورنہ دوسری صورت میں ملک میں معیشت کا پہیہ چلانا اور گھریلو ضروریات پوری کرنا مشکل ہوجائے گا۔