پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے مزید قرض ملنے کی راہ ہموار ہونے کے بعد پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ تاہم ایسے میں یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ اس تیزی کا عام آدمی کی زندگی پر کیا اثر پڑے گا اور اس کے ثمرات عام آدمی تک کب پہنچیں گے؟
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے ملک کے ٖڈیفالٹ کے خطرات میں کمی اور معاشی بحالی کے اثرات نظرآنے لگے ہیں، تاہم کچھ معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی ضرورت ہے۔
تقریباً ایک ماہ سے پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ میں تاریخی تیزی دیکھی جا رہی ہے اور مارکیٹ انڈیکس میں ایک ماہ میں 10 ہزار پوائنٹس کا اضافہ ہو چکا ہے۔
اگرچہ جمعے کو پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں کاروبار کے اختتام پر 333 پوائنٹس کی بڑی کمی دیکھی گئی۔ لیکن جمعرات کو مارکیٹ نے 57 ہزار پوائنٹس کی سطح کو عبور کیا جو ستمبرمیں 45 ہزار اور اکتوبر کے شروع میں 46 ہزار پوائنٹس پر کھڑی تھی۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ اضافے کی متعدد ٹھوس وجوہات موجود ہیں۔
اسٹاک بروکر جبران سرفراز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں مزید اضافہ نہ کرنے کے امکانات روشن ہونے اور کارپوریٹ سیکٹرز کے منافع میں مسلسل اضافے جیسے اشاروں کے باعث مارکیٹ کی کارکردگی اچھی نظر آرہی ہے۔
اُن کے بقول بینک، فرٹیلائزرز، تیل اور گیس کے ذخائر تلاش کرنے والی کمپنیوں اور دیگر شعبوں میں بڑی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان انویسٹمنٹ بانڈ کے حال ہی میں ہونے والے آکشن میں شرح منافع میں بڑی کمی آنے سے اس بات کے امید پیدا ہوئی ہے کہ اب اگلے مرحلے میں شرح سود میں بھی کمی دیکھی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب گیس کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹی فکیشن جاری ہونے سے بھی مارکیٹ میں بہتری کا رحجان دیکھا گیا ہے کیوں کہ سرمایہ کار اس حوالے سے کافی عرصے سے غیر یقینی کا شکار تھے کہ آیا یہ اضافہ ہوگا یا نہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ اضافے سے گیس کے شعبے میں چار سو ارب روپے کے گردشی قرضے کو کسی حد تک کم کرنے میں مدد ملے گی۔
لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اس سے مہنگائی اور بے روزگاری کے شکار عام آدمی کی زندگی پر کیا فرق پڑے گا؟ کئی تجزیہ کار اس پر شک کا اظہار کرتے ہیں کہ اسٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ توڑ تیزی کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
'اسٹاک مارکیٹ معیشت کا مستقبل دکھانے کا آئینہ ہے'
معاشی تجزیہ کار محمد عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ اسٹاک مارکیٹ معیشت کے لیے ایک بیرومیٹر ضرور ہوتی ہے لیکن یہ مستقبل کا منظر بتاتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ آج کسی عام پاکستانی کو معاشی ترقی یا معاشی بہتری کے کوئی اثرات نظر آرہے ہوں گے۔ لیکن معیشت کو قریب سے دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں کہ اس میں تھوڑا سا استحکام ضرور آیا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ مستقبل میں اچھے حالات ہونے کی ایک چھوٹی سی ہی سہی مگر امید قائم ہوئی ہے۔
اُن کے بقول ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں موجود ہیں جو کہ اطمینان بخش بات ہے۔ ڈیفالٹ کے خطرات پہلے سے کم ہوئے ہیں اور اس بہتری کے اثرات اسٹاک مارکیٹ کی پرفارمنس پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسٹاک مارکیٹ میں کسی بھی کمپنی کے شئیرز درحقیقت بتاتے ہیں کہ وہ کمپنی یا فنڈ مستقبل میں کس قدر سرمایہ یا منافع کمائے گا۔ جب بھی شرح سود کم ہو یا شرح سود کم ہونے کے امکانات اور توقعات بھی پیدا ہوں تو شئیرز کی ویلیو بڑھنے لگتی ہیں۔
اُن کے بقول انہی وجوہات کی بنا پر اسٹاک مارکیٹ ہمیں بہتر پرفارم کرتے دکھائی دیتی ہے۔ لیکن اگر حالات بدلیں تو یہ امیدیں کسی وقت دم توڑ بھی سکتی ہے۔
'بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کیے بغیر بہتری کی توقع غلط ہے'
انہوں نے مزید بتایا کہ 2016-2015 میں پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں بیرونی سرمایہ کاری آٹھ ارب ڈالر کے قریب تھی جب کہ اب یہ ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔ اگر ملک میں کاروباری، قانونی اور دیگر شعبوں میں بامعنی اصلاحات لائی جائیں جس سے کاروبار کرنا آسان ہو تو غیر ملکی سرمایہ کاری آنے سے یقیناً اسٹاک مارکیٹ میں بہتری کے اثرات ملکی معیشت پر بھی صاف نظر آنے لگیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ جب اسٹاک مارکیٹ میں تیزی آتی ہے اور یہاں سرمایہ کاروں کو منافع ملتا ہے تو وہ لوگ جنہوں نے اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کر رکھی ہوتی ہے ان کے پاس بھی پیسہ زیادہ آتا ہے اور پھر وہی پیسہ مستقبل میں معیشت کے دوسرے شعبوں میں انویسٹ ہونے کی صورت میں جامد معیشت کو آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے۔
جبران سرفراز کا بھی کہنا ہے کہ سال 2016-2015 میں پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ میں بیرونی سرمایہ کاروں کا شئیر 30 فی صد کے لگ بھگ تھا جو اب 10 فی صد سے کم ہے۔
اُن کے بقول اگر معاشی اشاریوں میں کسی حد تک استحکام آئے تو بیرونی سرمایہ کار بھی واپس آ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں عام آدمی اب بھی اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری نہیں کرتا۔
مجموعی طور پر ملک میں اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی تعداد محض دو لاکھ کے قریب ہے۔ اگر عام آدمی بھی بڑی تعداد میں سرمایہ کاری کرے تو اس سے مارکیٹ لکویڈیٹی بڑھ سکتی ہے اور اس مارکیٹ کا حجم یعنی ان کمپنیوں کے پاس سرمایہ کو بڑھانے کا باعث بنے گا جو نتیجے کے طور پر معاشی سرگرمیوں کو بڑھانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔
'مشرقِ وسطیٰ میں جاری بحران معاشی بحالی پر اثر انداز ہوسکتا ہے'
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آنے والی مہینوں میں افراطِ زر یعنی مہنگائی کم ہونے کی بھی امید ہے اور اس میں اسٹیٹ بینک کے پاس موقع ہو گا کہ وہ شرح سود مزید کم کردے جس سے کسی حد تک ملک میں کاروبار کرنے میں سہولت پیدا ہو گی۔ تاہم مشرق وسطیٰ میں جاری حماس اسرائیل جنگ کی وجہ سے تیل اور اجناس کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ لیکن فی الحال ایسا نہیں ہوا۔
جبران سرفراز کے مطابق ایک ماہ میں 10 ہزار پوائنٹس کے اضافے سے ایسا لگتا ہے کہ مارکیٹ اوور ہیٹ ہو رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آںے والے دنوں میں مارکیٹ میں ٹیکنیکل کریکشن مزید نظر آ سکتی ہے جس میں اسٹاک مارکیٹ میں کچھ حد تک مندی بھی نظر آںے کا امکان ہے۔
ایک جانب تجزیہ کاروں کو امید ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کی اب بھی کافی گنجائش موجود ہے کیوں کہ مارکیٹ میں لگایا گیا سرمایہ پچھلے برسوں کے مقابلے میں کافی کم ہے اور اسٹاک مارکیٹ میں بہتری اپنی جگہ مگر دوسری جانب ملک کے معاشی اسٹرکچر میں موجود مسائل کو حل کرنے تک کسی ایسی بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔