دسمبر شروع ہوتے ہی کراچی میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں ہواکے رخ بدل گئےہیں۔ سرد ہواوٴں نے پہاڑی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور سرمئی بادلوں نے کراچی پر چمکنے والے سورج کے آگے ایک چادر سی تان د ی ہے۔ آثار بتارہے ہیں کہ ایک دو دن مزید ۔۔ پھر شاید کراچی کے اکثر شہری گرم کپڑوں میں لپٹے نظر آئیں گے کیونکہ کوئٹہ اور بالائی علاقوں کی پہاڑی چوڑیوں نے برف کی سفید چادر اوڑھنا شروع کردی ہے۔
ملک کے ساحلی علاقوں کی خوبصورتی سائبریا اور دیگر سر د ممالک سے آئے ہوئے آبی پرندوں نے یکدم ہی بڑھا دی ہے۔ کراچی کے ساحل اور اندرون سندھ کی جھیلوں ، چھوٹی بڑی آب گاہوں ، دریا اور چشموں و جھرنوں پرانگنت مسافرپرندوں نے ڈھیرے ڈال دیئے ہیں ۔ یہ پرندے ہزاروں میل کا سفر طے کر کے ہر سال کراچی اور سندھ کے ساحلی علاقوں تک پہنچتے ہیں۔
جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پرندوں کی آمد اگست سے ہی شروع ہوجاتی ہے جبکہ نومبر اور دسمبر آتے آتے ان پرندوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اب چونکہ دسمبر کا مہینہ شروع ہوچکا ہے لہذا تلیئر، بٹیر، مرغابی ، نیل سر ، لال چونچ ، لال سر ، لنگو بطخ ، سفید سرخاب ، سلیٹ راج ہنس اور دیگر نسلوں کے پرندوں کی ٹولیاں اور جھرمٹ ساحلی علاقے کو اپنے خوب صورت رنگوں کی آغوش میں لے چکے ہیں۔ ایسے موسم میں ساحل پر پرندوں کی چہچہاہٹ نہایت دلفریب منظر لئے ہوئے ہے
جنگلی حیات کے ادارے کی جانب سے کئے جانے والے ایک سروے کے مطابق ہر سال چار سے پانچ لاکھ مسافر پرندے ہالے جی لیک ، کینجھر ، ہونڈو بیرو ، پھوسنا ، کھاروچھان، ٹھٹھہ اور ضلع بدین میں لنگھ ، ڈرگھ ، کاچھڑی ، زیرو ، سارو ، گدو بیراج ، سکھر بیراج ، کوٹری بیراج ، دیہہ اکرو ، ریگستانوں جھیلوں ، وائلڈ لائف سین کچری ، حب ڈیم ، چوٹیاری ڈیم اور دیگر علاقوں میں قیام کرتے ہیں ۔
کراچی میں مسافر پرندوں کی آمد ہاکس بے ، کورنگی کریک اور حب ڈیم پر ہوتی ہے ۔ صوبائی محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق سندھ میں 350 سے زاہد اقسام کے پرندے آتے ہیں ۔
ساحلوں سے ہٹ کر مشین کی طرح بھاگتی دوڑتی زندگی کے روزمرہ معمولات کا جائزہ لیں تو شہر قائد میں سردی کی آمد کا اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ لیکن چونکہ یہ نہایت غریب پرور شہر ہے لہذا یہاں سردی کا اہتمام بھی اسی انداز سے ہوتا ہے لہذا شہر کے تمام گنجان آباد علاقوں میں سر شام لگنے والے کورن سوپ اور چکن سوپ کے ٹھیلے سج گئے ہیں۔
گرما گرم سوپ سے سردی کی ٹھنڈک بھاگنے کا اپنا ہی مزہ ہے اس لئے سورج ڈھلتے ہی ان ٹھیلوں اور کچی پکی دکانوں پر سوپ خریدنے والوں کا رش شروع ہوجاتا ہے جو رات گئے تک جاری رہتا ہے۔
کراچی میں سردی کی آمد کاپتہ جو چیزیں بڑے واضح انداز میں دیتی ہیں ان میں سڑکوں کے کنارے آباد روئی دھنے والوں کی دکانوں کے باہر لگے رنگ برنگے غلافوں سے سجے گدے اور لحاف کے ڈھیر۔ اگرچہ اب لحاف کا فیشن ’اولڈ ‘ ہوچلا اور بہت سے لوگوں نے لحافوں کی جگہ ریشمی کمبلوں کو استعمال کرنا شروع کردیا ہے مگر لحاف اور گدے پھر بھی سردی کی’ سوغات ‘سمجھے جاتے ہیں۔
پچھلے زمانے میں گھر کی بزرگ خواتین سردی کی آمد سے قبل ہی انہیں ’دھوپ لگاکر‘ سخت موسم میں استعمال کے لئے تیار کرلیا کرتی تھیں اور سردی کے جاتے ہی بڑے بڑے ٹین کے صندوقوں میں انہیں اگلے موسم تک کے لئے سنبھال کررکھ لیا جاتا تھا ۔
ایک روایت یہ بھی تھی کہ کپڑوں کو کسی قسم کا کیڑا نہ لگے لہذا صندوقوں میں کافور کی گولیاں یا نیم کے پتے رکھ دیئے جاتے تھے جو اگلے موسم میں اسی طرح نکلتے تھے جیسے کتابوں سے سوکھے ہوئے پھول نکلتے ہیں۔
حلوائیوں کی دکانوں پر گاجر کا حلوہ ملنے لگے تو بھی محسوس ہوتا ہے کہ سردی آگئی۔ پھر سردی کی طویل راتوں میں لحافوں کے اندر دبک کر گھروالوں کے ساتھ مونگ پھلیاں کھانے کا مزہ بھی شائد ہماری روایت کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔
پھر گلی محلوں کے چھوٹے بڑے راستوں سے ہوکر گزرتے خشک میووں کے ٹھیلے اور ان پر گڑ اور چینی سے بنی گجک کے ڈھیر، انجیر، خوبانی، اخروٹ، تل کے لڈو، مونگ پھلیاں، چنے ، کھیلیں، الائچی دانے اور جانے کیا کیا کچھ۔۔۔یہ سردی کے ہی تو نظارے ہیں۔