بھارت میں ہزاروں کسان مظاہرین اور سیکیورٹی اہل کار ایک بار پھر آمنے سامنے ہیں۔ مظاہرین کو قابو میں رکھنے کے لیے جہاں ایک طرف بھارتی سیکیورٹی اہل کار ہیں تو وہیں نہنگ سکھ کسانوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔
نہنگ سکھوں کی تاریخ سولہویں صدی سے جا ملتی ہے اور انہیں خاص طور پر جنگوں کے لیے تیار کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی اپنے مخصوص نیلے لباس اور پگڑیوں کے علاوہ نیزے اور جنگی انداز میں گھڑ سواری نہنگوں کی پہچان ہے۔
احتجاج کرنے والے کسانوں میں سے زیادہ تر کا تعلق بھارتی ریاست پنجاب سے ہے اور ان میں سکھ مذہب ماننے والوں کی اکثریت ہے۔ یہ مظاہرین حکومت سے فصلوں کی امدادی قیمت بڑھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے دارالحکومت دہلی جانا چاہتے ہیں۔
تاہم پولیس نے آنسو گیس اور واٹر کینن کے استعمال سے کسان مظاہرین کو منتشر کر کے دہلی سے تقریباً دو سو کلو میٹر دور روک لیا ہے۔
مظاہروں میں شریک ایک شخص کی کے ہلاکت بعد کسانوں نے بدھ کو اپنا احتجاج دو روز کے لیے ملتوی کا اعلان کیا تھا۔ پولیس نے مظاہرے میں ایک شخص کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے اور ساتھ ہی کہا کہ موت کی وجہ کے بارے میں پوسٹ مارٹم کے بعد ہی کچھ کہا جائے گا۔
کسان اپنا مارچ دوبارہ شروع کرنے کی تیاری میں ہیں اور اس دوران نہنگ جنگجو گھڑ سواری، نیزے بازی اور تلوار بازی کی مشقیں کر رہے ہیں۔
اپنے ڈھیلے ڈالے لباس اور بڑی پگڑیوں کی وجہ سے پہچانے جانے والے نہنگوں کا کہنا ہے کہ وہ کسانوں کی ’حفاظت‘ کے لیے مارچ میں شریک ہوئے ہیں۔
شیر سنگھ نامی نہنگ کا کہنا تھا کہ سکھوں کے مذہبی پیشوا گرو گوبند سنگھ نے اپنے ماننے والوں کو اس بات کی تبلیغ کی تھی کہ وہ ہر وقت جبر اور ناانصافی کے خلاف لڑنے کے لیے تیار رہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر مظاہرین کو آدھی رات کو بھی کو مشکل پیش آتی ہے تو وہ ان کی مدد کے لیے ہر دم تیار ہیں۔
بھارت کی سکھ کمیونٹی ریاست پنجاب کی تین کروڑ آبادی کا نصف ہیں۔ 2021 میں بھی کسانوں کے احتجاج کے دوران نہنگوں نے حصہ لیا تھا۔
مارچ میں شامل ایک اور نہنگ راجا رام سنگھ کا کہنا ہے کہ کسانوں کو ظلم کا سامنا ہے۔ حکومت یہ بات ذہن سے نکال دے کہ وہ کسانوں کو ڈرا دھمکا کر دھکیل دے گی۔ یہ پنجاب ہے اور ہم کسانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق 2021 کے کسان مارچ کے دوران دو نہنگوں کو پولیس نے ایک سکھ شخص کے قتل سے تعلق کی بنا پر گرفتار کر لیا تھا۔ ان کا الزام تھا کہ مقتول نے سکھ مت کی مقدس کتاب کو نقصان پہنچایا تھا۔
نہنگو نے اس الزام کی تردید نہیں کی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ مقتول ان کی مقدس کتاب پر حملہ آور ہو کر توہین کا مرتکب ہوا تھا۔
اس خبر میں شامل مواد خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لیا گیا ہے۔