بھارت کی مشرقی ریاست آسام میں کم عمری کی شادی کے خلاف کریک ڈاؤن کے تحت اب تک تین ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
گرفتار شدگان کو عارضی جیلوں میں رکھا گیا ہے۔ ان گرفتاریوں کے خلاف خواتین کی جانب سے احتجاج بھی جاری ہے۔
نشریاتی ادارے ‘انڈیا ٹوڈے’ کے مطابق آسام کے ساؤتھ سلمارا منکاچر ضلع میں ایک خاتون نے گرفتاری کے خوف سے خودکشی کر لی ہے۔
جس خاتون نے خود کشی کی ہے ان کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ تین ماہ قبل ہی ان کی شادی ہوئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق خاتون ساؤتھ سلمارا پولیس اسٹیشن کے تحت آنے والے موضع کمار پاڈا کی مکین تھیں۔ پولیس نے لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا ہے۔
قبل ازیں رواں ماہ تین فروری کو اسی ضلع میں دو بچوں کی ایک ماں نے ان کے والدین کے مطابق گرفتاری کے خوف سے خودکشی کی تھی۔
اس خاتون کی عمر اس وقت 27 برس تھی جب کہ شادی کے وقت وہ 18 سال سے کم عمر کی تھیں۔
سال 2020 میں ان کے شوہر کا کرونا وبا کی وجہ سے انتقال ہو گیا تھا اور وہ اپنے والدین کے پاس رہ رہی تھیں۔
ضلعے کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) ہورین ٹوکبی نے خود کشی کا سبب کریک ڈاؤن ماننے سے انکار کیا ہے۔
انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ خاتون نے گھریلو مسائل کی وجہ سے خودکشی کی ہے۔ ہم اس معاملے کی تحقیقات کریں گے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق کچھار ضلع کی ایک 17 سالہ خاتون نے اس وجہ سے خودکشی کر لی کہ ان کے والدین نے پسند کی شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
میڈیا رپورٹ میں یہ شبہ ظاہر کیا گیا ہے کہ والدین نے اس خوف سے شادی نہیں کی کہ مذکورہ مہم کے تحت ان کی بھی گرفتاری ہو سکتی ہے۔
ایک دوسرے معاملے میں دھوبری ضلع کے گولک گنک علاقے میں ایک 23 سالہ خاتون نے پولیس تھانے کے سامنے جا کر اپنے شوہر اور والد کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ بصورت دیگر انہوں نے خودکشی کی دھمکی دی۔
خاتون نے جب دیکھا کہ پولیس دونوں کو عدالت لے جا رہی ہے تو وہ بیہوش ہو گئیں۔
آسام حکومت نے ریاست میں بچوں اور زچگی کی شرح اموات کو کم کرنے کے مقصد سے کم عمری کی شادیوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا ہے۔
اس کریک ڈاؤن میں14 برس سے کم عمر کی لڑکی سے شادی کرنے یا کرانے والوں کے خلاف ’پروٹیکشن آف چائلڈ فرام سیکچوؤل افنسز ایکٹ‘ (پوکسو) کے تحت مقدمات درج ہو رہے ہیں جب کہ 18 سال سے کم عمر کی لڑکی سے شادی کرنے یا کرانے والوں کے خلاف ’پروہیبیشن آف چائلڈ میرج ایکٹ‘ کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔
بھارت میں لڑکیوں کے لیے شادی کی قانونی عمر 18 سال اور لڑکوں کی 21 سال ہے۔ اس سے کم عمر میں شادی کرنا غیر قانونی ہے۔
آئین کے ماہر اور نلسار لایونیورسٹی حیدرآباد کے سابق وائس چانسلر پروفیسر فیضان مصطفیٰ نے ان گرفتاریوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادی ایک سماجی مسئلہ ہے۔ حکومت کو فوجداری قانون کو زبردستی نافذ کرنے کے بجائے تعلیم اور بیداری کی مہم چلانی چاہیے۔
انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو لڑکیوں کی تعلیم کا انتظام کرنا چاہیے۔ اگر مسلمانوں کے درمیان یہ مسئلہ زیادہ سنگین ہے تو لڑکیوں کو اسکول بھیجنے کا انتظام ہونا چاہیے۔
ان کے بقول انہوں نے کسی تعلیم یافتہ یا امیر شخص کو کم عمری میں اپنی بیٹی کی شادی کرتے نہیں دیکھا۔
انسانی حقوق کی ایک وکیل دیباشمیتا گھوش نے خبررساں ادارے ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ (پی ٹی آئی) سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک بار شادی ہو گئی تو قانون اسے جائز تصور کرتا ہے اور اس جوڑے سے پیدا ہونے والے بچوں کو تمام قانونی اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔
ان کے مطابق قانون کی رو سے بچپن کی شادی صرف اس صورت میں کالعدم ہے جب ضلعی عدالت میں اس شخص کی طرف سے درخواست دائر کی جائے جو شادی کے وقت بچہ تھا اور اگر درخواست گزار نابالغ ہو تو اس کے سرپرست کی جانب سے اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔
ان کے مطابق جو گرفتاریاں ہوئی ہیں ان میں سے بیشتر جوڑے اب بالغ ہیں اور اگر انہوں نے شادی کو کالعدم کرنے کی کوئی درخواست عدالت میں داخل نہیں کی ہے تو ریاست کو ان کے ذاتی معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔
حقوقِ اطفال کے لیے سرگرم ایک کارکن میگول داس نے پی ٹی آئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر شادی کے وقت لڑکا اور لڑکی نابالغ تھے اور اب وہ بالغ ہیں، تو انہیں سزا نہیں دی جا سکتی۔ البتہ جن بڑوں نے ایسی شادی کرائی ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت کو ان گرفتاریوں کے خلاف ہونے والے احتجاج پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
یاد رہے کہ ان خواتین کی جانب سے جن کے شوہر، سسر، یا والد اور بھائی کو گرفتار کیا گیا ہے، حکومت کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جن کو گرفتار کیا گیا وہی روزی روٹی کماتے تھے اب وہ اپنی زندگی کیسے گزاریں۔
انسانی حقوق کے سرگرم کارکن کیلاش ستیارتھی کے ادارے ’کیلاش ستیارتھی چلڈرنز فاؤنڈیشن‘ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جن کے شوہروں کو گرفتار کیا گیا ہے حکومت ان خواتین کو دو دو ہزار روپے ماہانہ ادا کرے۔
آسام میں بچوں کے حقوق سے متعلق کمیشن ’آسام اسٹیٹ کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس‘ (اے ایس سی پی سی آر) کی چیئرپرسن سنیتا چنگاکوٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت کی سخت کارروائیوں کے بعد لوگ اب مذکورہ قانون پر بات کرنے لگے ہیں۔
ان کے خیال میں کم عمری کی شادی کے لیے تنہا پولیس کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ محکمۂ صحت ٹین ایجر کے حمل کے بارے میں اور اساتذہ لڑکیوں کے اسکول چھوڑنے اور کم عمری میں شادی کیے جانے کی رپورٹ نہیں کرتے۔