’بھرے بازار میں بیٹھ کر دکان چلانے کی مشکلات کا اندازہ مجھے پہلے سے تھا کہ جب میں گھر سے باہر نکلوں گی تو مجھے ہر طرح کی مشکلات پیش آئیں گی‘: درزی کی دکان چلانےوالی خاتون کی خصوصی گفتگو
کراچی —
پاکستانی معاشرے کو 'مردوں کا معاشرہ‘ کہا جاتا ہے، جہاں خواتین کو گھروں سے باہر نکل کر کام کرنا ایک کھٹن مرحلہ تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن، کراچی کی عطیہ نے اپنی محنت اور جستجو سے مردوں کے اس معاشرے میں اپنی دھاک بٹھائی ہے۔
عطیہ کراچی کی ایک مشہور مارکیٹ میں گذشتہ 13 برسوں سے درزی کی دکان چلا رہی ہیں۔
درزی کی اس دکان میں وہ خود کپڑوں کے آرڈر لینے سمیت کٹنگ اور سلائی بھی خود ہی کرتی ہیں۔ شوہر ہونے کے باوجود، عطیہ نے گھر کی کفالت کا خود ذمہ کیوں اٹھایا؟ آئیے، وجوہات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
عطیہ کہتی ہیں کہ ’شوہر کوئی کام نہیں کرتے۔ اگر میں اپنی دکان نہیں کھولتی، تو کیا کرتی۔ گھر میں بچوں کو پالنا، راشن، گھر کے کرائے کی ادائیگی سب کی ضرورت تھی‘۔
انھوں نے بتایا کہ، ’جب ایک ماں بچے کو جنم دیتی ہے، تو ان کے جذبات و تکالیف کو سمجھنے والی، الفاظ کے معنی سمجھنے والی، ان کی ماں ہوتی ہے، جو بچوں کی خاطر ہر تکلیف سہنے کے لیے تیار رہتی ہے‘۔
عطیہ کہتی ہیں کہ’بھرے بازار میں بیٹھ کر دکان چلانے کی مشکلات کا اندازہ مجھے پہلے سے تھا کہ جب میں گھر سے باہر نکلوں گی تو مجھے ہر طرح کی مشکلات پیش آئیں گی۔
عطیہ کا کہنا ہے کہ ’جب ایک عورت گھر سے کمانے کیلئے نکلتی ہے تو اسے کئی مسائل اور لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’گھر سے نکل کر ٹرانسپورٹ میں مسائل، سڑک پار کرنے کی مشکلات، پھر بازار میں لوگوں کی باتیں، خریداری کرنے والے لوگوں اور مرد دکانداروں اور پھر جب گاہک آتے ہیں، ان مرد گاہکوں کا سامنا کہ وہ کس طرح آپ سے بات کرتا ہے؟ کیسی نظروں سے دیکھتا ہے؟ اچھی نظر سے دیکھنے والے کم اور بری نظروں والے زیادہ ہوتے ہیں۔
بقول ان کے، ’مگر میں نے ان تمام مشکلات کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا، ہر مصیبت ہنس کے سہی اور ہمت نہیں ہاری‘۔
ایک خاتون ہونے کے حوالے سے عطیہ کہتی ہیں کہ کسی خاتون کو کسی بھی شعبے میں آگے نہیں آنے دیا جاتا۔ وہ اس لئے کہ انھیں معلوم ہے کہ اگر ایک عورت آگے نکل گئی تو مرد پیچھے رہ جائےگا۔
بقول اُن کے، ’مرد کے مقابلےمیں ایک عورت پریشانیوں کا سامنا آسانی سے کرلیتی ہے۔ جب یہاں میں نے ہر مسئلے کو سہا، تو پڑوسی دکانداروں نے بھی مدد کی‘۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہر کامیاب عورت کے پیچھے اس کے گھر والوں کی سپورٹ شامل ہوتی ہے۔ مجھے بھی میرے خاندان والوں نے حوصلہ دیا‘۔
خواتین کے حوالے سے، اُن کا کہنا تھا کہ خواتین مردوں کے مقابل کام کر رہی ہیں۔ مہنگائی اور اخراجات پورے کرنے کیلئے خواتین غریبی کا رونا رونے کے بجائے خود بھی کسی پیشے سے وابسطہ ہوجائیں تو حالات بدل سکتے ہیں۔
مارکیٹ کے دیگر دکانداروں کا کہنا ہے کہ، عطیہ اپنے گھر کی کفالت کیلئے کئی سالوں سے یہ دکان چلارہی ہیں، جو دیگر خواتین کیلئے بھی ایک مثبت نمونے کی حیثیت رکھتا ہے۔
دکانداروں نے کہا کہ وہ عطیہ صاحبہ کے کام کو سراہتے ہیں۔
اُنھوں نے خصوصی طور پر اپنے گھر کی کفالت کیلئے عطیہ کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کی تعریف کی۔
کراچی کی اس خاتون نے اپنی ہمت و حوصلے سے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ عورت اگر چاہے تو ہمت و حوصلے سے اپنی تقدیر خود بدل سکتی ہے۔
عطیہ کراچی کی ایک مشہور مارکیٹ میں گذشتہ 13 برسوں سے درزی کی دکان چلا رہی ہیں۔
درزی کی اس دکان میں وہ خود کپڑوں کے آرڈر لینے سمیت کٹنگ اور سلائی بھی خود ہی کرتی ہیں۔ شوہر ہونے کے باوجود، عطیہ نے گھر کی کفالت کا خود ذمہ کیوں اٹھایا؟ آئیے، وجوہات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
عطیہ کہتی ہیں کہ ’شوہر کوئی کام نہیں کرتے۔ اگر میں اپنی دکان نہیں کھولتی، تو کیا کرتی۔ گھر میں بچوں کو پالنا، راشن، گھر کے کرائے کی ادائیگی سب کی ضرورت تھی‘۔
انھوں نے بتایا کہ، ’جب ایک ماں بچے کو جنم دیتی ہے، تو ان کے جذبات و تکالیف کو سمجھنے والی، الفاظ کے معنی سمجھنے والی، ان کی ماں ہوتی ہے، جو بچوں کی خاطر ہر تکلیف سہنے کے لیے تیار رہتی ہے‘۔
عطیہ کہتی ہیں کہ’بھرے بازار میں بیٹھ کر دکان چلانے کی مشکلات کا اندازہ مجھے پہلے سے تھا کہ جب میں گھر سے باہر نکلوں گی تو مجھے ہر طرح کی مشکلات پیش آئیں گی۔
عطیہ کا کہنا ہے کہ ’جب ایک عورت گھر سے کمانے کیلئے نکلتی ہے تو اسے کئی مسائل اور لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’گھر سے نکل کر ٹرانسپورٹ میں مسائل، سڑک پار کرنے کی مشکلات، پھر بازار میں لوگوں کی باتیں، خریداری کرنے والے لوگوں اور مرد دکانداروں اور پھر جب گاہک آتے ہیں، ان مرد گاہکوں کا سامنا کہ وہ کس طرح آپ سے بات کرتا ہے؟ کیسی نظروں سے دیکھتا ہے؟ اچھی نظر سے دیکھنے والے کم اور بری نظروں والے زیادہ ہوتے ہیں۔
بقول ان کے، ’مگر میں نے ان تمام مشکلات کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا، ہر مصیبت ہنس کے سہی اور ہمت نہیں ہاری‘۔
ایک خاتون ہونے کے حوالے سے عطیہ کہتی ہیں کہ کسی خاتون کو کسی بھی شعبے میں آگے نہیں آنے دیا جاتا۔ وہ اس لئے کہ انھیں معلوم ہے کہ اگر ایک عورت آگے نکل گئی تو مرد پیچھے رہ جائےگا۔
بقول اُن کے، ’مرد کے مقابلےمیں ایک عورت پریشانیوں کا سامنا آسانی سے کرلیتی ہے۔ جب یہاں میں نے ہر مسئلے کو سہا، تو پڑوسی دکانداروں نے بھی مدد کی‘۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہر کامیاب عورت کے پیچھے اس کے گھر والوں کی سپورٹ شامل ہوتی ہے۔ مجھے بھی میرے خاندان والوں نے حوصلہ دیا‘۔
خواتین کے حوالے سے، اُن کا کہنا تھا کہ خواتین مردوں کے مقابل کام کر رہی ہیں۔ مہنگائی اور اخراجات پورے کرنے کیلئے خواتین غریبی کا رونا رونے کے بجائے خود بھی کسی پیشے سے وابسطہ ہوجائیں تو حالات بدل سکتے ہیں۔
مارکیٹ کے دیگر دکانداروں کا کہنا ہے کہ، عطیہ اپنے گھر کی کفالت کیلئے کئی سالوں سے یہ دکان چلارہی ہیں، جو دیگر خواتین کیلئے بھی ایک مثبت نمونے کی حیثیت رکھتا ہے۔
اُنھوں نے خصوصی طور پر اپنے گھر کی کفالت کیلئے عطیہ کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کی تعریف کی۔
کراچی کی اس خاتون نے اپنی ہمت و حوصلے سے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ عورت اگر چاہے تو ہمت و حوصلے سے اپنی تقدیر خود بدل سکتی ہے۔