واشنگٹن —
سال 2014ء میں جن 10خواتین کو امریکی محکمہٴخارجہ کی جانب سے جراٴت اور بہادری کا ’وومین آف کریج ایوارڈ‘ دیا گیا ہے، ان میں افغانستان میں خواتین کی صحت پر کام کرنے والی گائیناکولوجسٹ ڈاکٹر نسرین اوریا خیل، بھارت میں تیزاب سے جھلسنے والی خواتین کی بھلائی پر کام کرنے والی خاتون لکشمی، سعودی عرب میں گھریلو تشدد اور بچوں سے زیادتی کے خلاف 2005میں نیشنل فیملی سیفٹی پروگرام کے نام سے ادارے کی بنیاد رکھنے والی، ڈاکٹر ماہا المنیف کے ساتھ سات دیگر ملکوں کی خواتین شامل ہیں۔
’وومین آف کریج ایوارڈ 2014ء‘ حاصل کرنے والی دیگر خواتین میں فجی میں جمہوریت کے لئے کام کرنے والی روشیکا ڈئیو، جارجیا میں صنفی برابری پر کام کرنے والی ایوینجیلیکل بیپٹسٹ چرچ کی بشپ روسودان گوٹسیریٹز، گوئٹے مالا کے انتہائی خطرناک سمجھے جانےو الے عدالتی ٹریبیونل کی جج آئرس یاسمین بیرئیس ایگوئیلر، دہشت گردی سے متاثرہ ملک مالی میں خواتین کے حقوق کی علمبردار فاطماتے تورے، تاجکستان میں خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی اوئینیخول بوبونازروفا، یوکرین سے تعلق رکھنے والی روزلانا لزہچکو، اور زمبابوے میں انسانی حقوق کی کارکن اورقانون دان بیٹرائس متیتوا شامل ہیں۔
اس سال کی کامیاب خواتین نےامریکی خاتون اول مشیل اوباما سے اپنا یہ ایوارڈ وصول کیا۔ امریکی خاتون اول نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایوارڈ حاصل کرنے والی خواتین کی جرات کو سراہا۔ اُن کے بقول، ’جب ہم ان خواتین کو بہادری سے زیادتی کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہم میں بھی انہی جیسی طاقت ہے اور ہمارا بھی ان ہی جیسا فرض ہے۔‘
امریکی محکمہٴخارجہ کی طرف سے ہر سال جرات اور بہادری کا یہ ایوارڈ ایسی دس خواتین کے حصے میں آتا ہے، جنہوں نے انسانی حقوق، قیام امن، یا صنفی برابری کے لئے جدو جہد کی ہو۔
اس سال کا ایوارڈ حاصل کرنے والی افغانستان سے تعلق رکھنےو الی ڈاکٹر نسرین اوریا خیل خواتین اور بچوں کی صحت پر کام کرتی ہیں۔ یہ 2004ء سے کابل کے ملالے میٹرنٹی ہاسپٹل کی ڈائریکٹر ہیں۔۔ڈاکٹر نسرین نے دیہاتوں سے علاج کے لئے کابل آنے والی کواتین کے لئے ملالے میٹرنٹی ہسپتال میں سہولتیں فراہم کرنے کے ساتھ ، یہاں پہلا آبسٹیٹرک فسٹولا ریپئیر سینٹر قائم کیا۔ ڈاکٹر نسرین افغانستان میں طب کے شعبے میں خواتین کی شرکت کی زبردست حامی ہیں ۔ انہوں نے افغانستان میں مڈ وائف یا دائیوں کے کردار کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے افغان مڈ وائیوز ایسوسی ایشن قائم کی ۔ ڈاکٹر نسرین افغان ویمن نیٹ ورک کی سرگرم رکن ہیں اور افغان پارلیمنٹ اور بین الاقوامی طبی کانفرنسوں میں افغان خواتین کی صحت کے حوالے سے کی بات خطاب کر چکی ہیں ۔
بھارت سے تعلق رکھنے والی لکشمی، 16 سال کی عمر میں بس سٹاپ پر کھڑی تھیں، جب محلے کے ایک لڑکے کے ہاتھوں تیزاب کے حملے کا نشانہ بنی تھیں۔ تیزاب پھینکنے والا ان کی ایک دوست کا 32سالہ بھائی تھا، جس نے لکشمی کی طرف سے اپنی پیش قدمیوں کا مثبت جواب نہ ملنے پر انہیں اپنے انتقام کا نشانہ بنایا ۔ لکشمی کہتی ہیں کہ تیزاب سے جھلسنے والی اکثر خواتین کبھی نارمل زندگی کی طرف واپس نہیں آتیں ۔ اکثر وہ تیزاب سے جھلسنے کے بعد اپنے جسمانی عیوب کو چھپانے کے لئے غیر معمولی احتیاط کرتی ہیں ۔ کئی خواتین تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں ، اور کئی ملازمت۔۔ ایسی خواتین میں خودکشی کے واقعات بھی عام ہیں ۔ لکشمی نے تیزاب سے جھلسنے کے بعد، اپنی جیسی دیگر بھارتی خواتین کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لئے ایک تحریک شروع کی ۔
انہوں نے 27000دستخطوں کے ساتھ تیزاب کی فروخت پر پابندی کی ایک پیٹیشن بھارتی سپریم کورٹ میں پیش کی ۔ جس کے نتیجے میں بھارتی سپریم کورٹ نے مرکزی اور صوبائی حکومتوں تیزاب کی فروخت کو زیادہ سختی سے ریگولیٹ کرنے کا پابند کیا اور پارلیمنٹ پر دباؤ ڈالا کہ وہ تیزاب حملوں میں ملوث افراد پر مقدمہ چلانے میں آسانی پیدا کرے ۔ لکشمی کہتی ہیں کہ ان کا کام ابھی ختم نہیں ہوا۔ وہ بھارت میں تیزاب سے جھلسنے والی خواتین کو زیادہ جرمانوں کی ادائیگی یقینی بنانے، موثر مقدمہ بازی اور تیزاب حملے روکنے کے ساتھ ساتھ، تیزاب سے جھلسنے والی خواتین کی زندگی کی طرف واپسی کے لئے کام کر رہی ہیں۔
’وومین آف کریج ایوارڈ 2014ء‘ حاصل کرنے والی دیگر خواتین میں فجی میں جمہوریت کے لئے کام کرنے والی روشیکا ڈئیو، جارجیا میں صنفی برابری پر کام کرنے والی ایوینجیلیکل بیپٹسٹ چرچ کی بشپ روسودان گوٹسیریٹز، گوئٹے مالا کے انتہائی خطرناک سمجھے جانےو الے عدالتی ٹریبیونل کی جج آئرس یاسمین بیرئیس ایگوئیلر، دہشت گردی سے متاثرہ ملک مالی میں خواتین کے حقوق کی علمبردار فاطماتے تورے، تاجکستان میں خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی اوئینیخول بوبونازروفا، یوکرین سے تعلق رکھنے والی روزلانا لزہچکو، اور زمبابوے میں انسانی حقوق کی کارکن اورقانون دان بیٹرائس متیتوا شامل ہیں۔
اس سال کی کامیاب خواتین نےامریکی خاتون اول مشیل اوباما سے اپنا یہ ایوارڈ وصول کیا۔ امریکی خاتون اول نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایوارڈ حاصل کرنے والی خواتین کی جرات کو سراہا۔ اُن کے بقول، ’جب ہم ان خواتین کو بہادری سے زیادتی کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہم میں بھی انہی جیسی طاقت ہے اور ہمارا بھی ان ہی جیسا فرض ہے۔‘
امریکی محکمہٴخارجہ کی طرف سے ہر سال جرات اور بہادری کا یہ ایوارڈ ایسی دس خواتین کے حصے میں آتا ہے، جنہوں نے انسانی حقوق، قیام امن، یا صنفی برابری کے لئے جدو جہد کی ہو۔
اس سال کا ایوارڈ حاصل کرنے والی افغانستان سے تعلق رکھنےو الی ڈاکٹر نسرین اوریا خیل خواتین اور بچوں کی صحت پر کام کرتی ہیں۔ یہ 2004ء سے کابل کے ملالے میٹرنٹی ہاسپٹل کی ڈائریکٹر ہیں۔۔ڈاکٹر نسرین نے دیہاتوں سے علاج کے لئے کابل آنے والی کواتین کے لئے ملالے میٹرنٹی ہسپتال میں سہولتیں فراہم کرنے کے ساتھ ، یہاں پہلا آبسٹیٹرک فسٹولا ریپئیر سینٹر قائم کیا۔ ڈاکٹر نسرین افغانستان میں طب کے شعبے میں خواتین کی شرکت کی زبردست حامی ہیں ۔ انہوں نے افغانستان میں مڈ وائف یا دائیوں کے کردار کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے افغان مڈ وائیوز ایسوسی ایشن قائم کی ۔ ڈاکٹر نسرین افغان ویمن نیٹ ورک کی سرگرم رکن ہیں اور افغان پارلیمنٹ اور بین الاقوامی طبی کانفرنسوں میں افغان خواتین کی صحت کے حوالے سے کی بات خطاب کر چکی ہیں ۔
بھارت سے تعلق رکھنے والی لکشمی، 16 سال کی عمر میں بس سٹاپ پر کھڑی تھیں، جب محلے کے ایک لڑکے کے ہاتھوں تیزاب کے حملے کا نشانہ بنی تھیں۔ تیزاب پھینکنے والا ان کی ایک دوست کا 32سالہ بھائی تھا، جس نے لکشمی کی طرف سے اپنی پیش قدمیوں کا مثبت جواب نہ ملنے پر انہیں اپنے انتقام کا نشانہ بنایا ۔ لکشمی کہتی ہیں کہ تیزاب سے جھلسنے والی اکثر خواتین کبھی نارمل زندگی کی طرف واپس نہیں آتیں ۔ اکثر وہ تیزاب سے جھلسنے کے بعد اپنے جسمانی عیوب کو چھپانے کے لئے غیر معمولی احتیاط کرتی ہیں ۔ کئی خواتین تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں ، اور کئی ملازمت۔۔ ایسی خواتین میں خودکشی کے واقعات بھی عام ہیں ۔ لکشمی نے تیزاب سے جھلسنے کے بعد، اپنی جیسی دیگر بھارتی خواتین کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لئے ایک تحریک شروع کی ۔
انہوں نے 27000دستخطوں کے ساتھ تیزاب کی فروخت پر پابندی کی ایک پیٹیشن بھارتی سپریم کورٹ میں پیش کی ۔ جس کے نتیجے میں بھارتی سپریم کورٹ نے مرکزی اور صوبائی حکومتوں تیزاب کی فروخت کو زیادہ سختی سے ریگولیٹ کرنے کا پابند کیا اور پارلیمنٹ پر دباؤ ڈالا کہ وہ تیزاب حملوں میں ملوث افراد پر مقدمہ چلانے میں آسانی پیدا کرے ۔ لکشمی کہتی ہیں کہ ان کا کام ابھی ختم نہیں ہوا۔ وہ بھارت میں تیزاب سے جھلسنے والی خواتین کو زیادہ جرمانوں کی ادائیگی یقینی بنانے، موثر مقدمہ بازی اور تیزاب حملے روکنے کے ساتھ ساتھ، تیزاب سے جھلسنے والی خواتین کی زندگی کی طرف واپسی کے لئے کام کر رہی ہیں۔