عالمی اقتصادی فورم نے کہا ہے کہ ایندھن اور خوراک کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بحران کے سبب خواتین کےسب سے زیادہ متاثر ہونے کی توقع ہے۔
ایک تازہ ترین رپورٹ میں فورم نے اس سلسلے میں عالمی لیبر فورس میں بڑھتے ہوئے صنفی فرق کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ عالمی وبا کی شدت میں کمی آنے کے ساتھ صنفی فرق میں وہ کمی واقع نہیں ہوئی جس کی امید کی جارہی تھی۔
اس رپورٹ میں صنفی تفریق کے اعتبار سے پاکستان 146 ممالک کی فہرست سے میں 145 ویں نمبر پر ہے۔ مگر اعداد و شمار ملک کی ایک دلچسپ اور پیچیدہ تصویر پیش کرتے ہیں۔
صنفی برابری کا حصول عالمی مسئلہ
جنیوا میں قائم تھنک ٹینک ورلڈ اکنامک فورم نے، جو ہر سال دنیا بھر سے مختلف شعبوں میں رہنماؤں کے سالانہ اجتماع کے لیے مشہور ہے، کہا ہے کہ دنیا کو صنفی برابری تک پہنچنے میں اب 132 سال لگیں گے۔ اس سے قبل اس ہدف کے حصول میں 136 سال کا اندازہ لگایا گیا تھا۔ فورم کے مطابق صنفی برابری کا تعین کرنے میں چار عوامل کار فرما ہوتے ہیں جن میں تنخواہ اور معاشی مواقع، تعلیم، صحت اور سیاسی طور پر بااختیار بنانا شامل ہیں۔ ان تمام عوامل میں عالمی سطح پر خواتین مردوں سے اتنی پیچھے ہیں کہ انہیں برابری دلانے میں ایک صدی سے زیادہ لگ جائے گی۔
صنفی برابری میں سر فہرست ممالک
اس معیار پر جانچتے ہوئے فورم کے مطابق آئس لینڈ دنیا میں پہلے نمبر پرہے۔وہاں مردوں اور خواتین کے درمیان مواقعوں کے فرق میں نوے فیصد تک کمی لائی جا چکی ہے۔ اس کے بعد فن لینڈ، نورے اور نیوزی لینڈ، اور سویڈن بہترین شمار کیے گئے۔ نیز افریقی ممالک روانڈا اور نمیبیا بھی چوٹی کے ان دس ممالک میں شامل ہیں جہاں مردوں اور خواتین کے درمیان فرق کم ترین ہے۔
پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
عالمی اقتصادی فورم کی درجہ بندی میں پاکستان نیچے سے دوسرا ملک ہے۔ پاکستان کے بعد اس عالمی درجہ بندی میں صرف افغانستان کا نمبر آتا ہے جو کئی برسوں جنگ کا شکار رہا ہے۔ رپورٹ میں پاکستان ان ملکوں میں شامل ہے جہاں صنفی تفریق پانچ فیصد سے زیادہ ہے۔تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ 2006 میں ورلڈ اکنامک فورم کی اس سالانہ رپورٹ کے آغاز کے بعد اس سال پاکستان میں صنفی تفریق کم ترین سطح پر ہے۔ملک میں مردوں اور خواتین کو حاصل مواقعوں میں فرق اب بھی 55 فیصد سے زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق خواتین اور مردوں کے درمیان معاشی مواقعوں میں فرق کے حساب سے پاکستان سب سے پیچھے، 145 ویں نمبر پر ہے۔ یعنی مردوں کے مقابلے میں روزگار کمانے والی خواتین کی تعداد خاصی کم ہے اور اعلی عہدوں پر بھی کم ہی خواتین فائز نظر آتی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں صرف ساڑھے چار فیصد سینئر، منیجمنٹ اور قانون سازی کی پوزیشنز پر خواتین نظر آتی ہیں جو کسی بھی ملک سے کم ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
صحت کی سہولتوں تک رسائی اور زندہ رہ پانے کی درجہ بندی میں صنفی تفریق کے اعتبار سے پاکستان 143ویں نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ وہ کیٹیگوری ہے جس میں عالمی سطح پر مردوں اور خواتین میں کم فرق پایا گیا لیکن یہاں بھی پاکستان ان ملکوں میں سے ایک ہے جہاں صنفی تفریق پانچ فیصد سےزیادہ ہے۔
تعلیم کے شعبے میں پاکستان میں خواتین نمایاں نظر آتی ہیں مگر جب دیگر ملکوں سے موازنہ ہو تو پاکستان کا نمبر135 واں ہے۔ اس کی بڑی وجہ سکول جانے والی بچیوں کی لڑکوں کے مقابلے میں کم تعداد ہے۔ پاکستان اور افغانستان جنوبی ایشیا کے وہ واحد دو ممالک ہیں جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی میں فرق دس فیصد سے زیادہ ہے۔ دنیا کے کُل صرف سولہ ممالک کی صورت حال اتنی خراب ہے۔
پاکستان اسلامی دنیا کا وہ پہلا ملک ہے جس نے ایک خاتون کو حکومت کا سربراہ چنا، اور وہ بھی ایک نہیں دو مرتبہ۔ اس وقت ملک کی بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ نون کا چہرہ ایک خاتون، مریم نواز ہیں۔ سیاسی سطح پر پاکستان صنفی تفریق کے اعتبار سے عالمی سطح پر 95ویں نمبر پر ہے۔ یعنی خواتین کی سیاست مین شمولیت وہ کیٹیگوری ہے جس میں پاکستان کا سکور سب سے بہتر ہے۔
صنفی تفریق کب تک ختم ہوگی؟
یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی 146 ممالک کی رپورٹ میں 10ویں نمبر پر آیا۔ فہرست میں سب سے بڑی معیشتیں اس سے کم درجہ پرہیں۔ امریکہ 27ویں نمبر پر، چین 102 پر اور جاپان 116 ویں نمبر پر ہے۔
عالمی درجہ بندی میں بھارت مجموعی طور پر 135ویں نمبر پر ہے۔ اس کے علاوہ فہرست میں نچلے ترین درجوں پر کئی مسلمان اکثریتی ممالک ہیں جن میں مراکش، قطر، عمان، الجیریا اور ایران شامل ہیں۔
عالمی وبا سے پہلے ورلڈ اکنامک فورم کا اندازہ تھا کہ عالمی سطح پر صنفی تفریق ختم ہونے میں سو سال لگیں گے۔ مگر اب اندازہ ہے کہ یہ سنگ میل حاصل ہونے میں 132 سال لگ سکتے ہیں۔ فورم کی منیجنگ ڈائریکٹر سعدیہ زاہدی کا کہنا ہے کہ خواتین کووڈ کی عالمی وبا کے دوران لیبر مارکیٹ کو لگنے والے دھچکوں سے مردوں کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوئیں۔ اور بچوں اور بزرگوں کی دیکھ بھال کا بوجھ بھی مردوں کے مقابلے ا خیال غیر متناسب طور پر متاثر ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کمزور بحالی کے پیش نظر، حکومتوں اور کاروباروں کو دو طرح کی کوششیں کرنا ہوں گی۔ ایک تو یہ کہ خواتین کی افرادی قوت میں واپسی اور مستقبل کی صنعتوں میں خواتین کی صلاحیتوں کی نشوونما کے لیے ٹارگٹڈ پالیسیاں ہوں۔
بصورت دیگر، انہوں نے تنبیہ کی کہ ہمیں پچھلی دہائیوں کے فوائد کو مستقل طور پر ختم کرنے اور تنوع کے مستقبل کے معاشی منافع سے محروم ہونے کا خطرے کا سامنا ہوگا۔
اقتصادی فورم کی یہ 16 ویں سالانہ رپورٹ ہے۔ اس کا مقصد لیبر مارکیٹ کو ان جھٹکوں کے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے جو صنفی فرق کو متاثر کر سکتے ہیں۔
(خبر کا کچھ مواد اے پی سے لیا گیا ہے)