امریکی محکمۂ خارجہ کی ٹریول ایڈوائزری کے باوجود مختلف تنظیموں سے تعلق رکھنے والی سات امریکی خواتین نے گزشتہ ہفتے کابل کا دورہ کیا ہے لیکن وہاں سے انہیں مایوس لوٹنا پڑا۔
کوڈ پنک نامی خواتین کی تنظیم سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سمیت ، گروپ نے پورا ہفتہ طالبان حکام، مقامی لوگوں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں سے ملاقاتوں میں گزارا ۔ انھوں نے کہا کہ وہ وہاں سے مایوس واپس آئی ہیں۔
گروپ میں شامل" کوڈ پنک" کی شریک بانی میڈیا بینجمن نے سان فرانسسکو میں اپنے گھر سے ٹیلی فون انٹرویو میں کہا کہ ان کے سفر کا اصل مقصد لڑکیوں کے اسکول کھلنے کی خوشیوں میں شریک ہونا تھا۔
لیکن افغانستان کے سفر سے دو دن قبل اس گروپ کو مطلع کردیا گیا تھا کہ طالبان نے اپنی یقین دہانیوں کے برعکس لڑکیوں کے ثانوی اسکولوں پر پابندی میں غیر متوقع توسیع کردی ہے۔
بینجمن نے کہا کہ اس کے بعد ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ کیا ہمیں اب بھی وہاں جانا چاہیے؟ اور فیصلہ کیا کہ یہ ضروری ہے کہ ہم لڑکیوں کے ساتھ اپنی حمایت کا اظہار کریں اور طالبان کو قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں ، یہ ایک بہت بڑا فیصلہ تھا۔
بینجمن نے کہا کہ دورے میں طالبان حکام نے گروپ کو بتایا کہ اسکول پرپابندی عارضی ہے۔
بینجمن نے کہا کہ جن خواتین سے وہ ملیں، ان کے دل بہت ٹوٹے ہوئے تھے۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ کس طرح ان کی امیدیں اور خواب چکناچور ہوئے اور وہ کس قدر مایوس ہو ئیں کہ وہ اپنے بھائیوں کی طرح تعلیم حاصل نہیں کرپائیں گی ، انہوں نے یہ بتایا کہ تعلیم ان کے لیے بہت اہم ہے۔
افغانستان کے اندر اور باہر کے اسلامی اسکالرز سمیت دنیا بھر نے اسکولوں پر پابندی کی مذمت کرتے ہوئے اور طالبان رہنماؤں سے لڑکیوں کے اسکول دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔
انتہائی غربت کے ڈیرے
امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ افغانستان بڑے پیمانے پر بھوک کی زد میں ہے، جس سے تین کروڑ 60 لاکھ کی آبادی کے ملک کا 95 فیصد حصہ متاثرہوا ہے۔
ہفتہ بھر کے دورے میں خواتین نے کابل کی سڑکوں پرغربت کے مناظر بھی دیکھے ۔ ستمبر الیون فیملیز فار پیس فل ٹومارو" نامی تنظیم کی رکن کیلی کیمبل نے کہا کہ ہم نے خوراک کی تقسیم کے مقامات پر غذائی قلت کے شکار بچوں اور انتہائی ضرورت مند لوگوں میں شدید معاشی بد حالی کے آثار دیکھے۔ ہم نے خواتین کو روٹی کے لیے قطاروں میں کھڑے دیکھا۔ ہر جگہ معاشی بدحالی کے آثار نمایاں تھے۔
افغانستان میں بڑھتے ہوئے انسانی بحران کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ نے 2022کے لیے چار ارب40 کروڑ ڈالر کی امداد کا مطالبہ کیا ہے لیکن عطیہ دہندگان نے صرف دو ارب 40 کروڑ ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔
گرچہ اقوام متحدہ کی اپیل پر امریکہ نے افغانستان کے لیے سب سے زیادہ، 51 کروڑ 20 لاکھ ڈالر انسانی امداد دینے کا وعدہ کیا ہے لیکن خواتین کا کہنا ہے کہ امریکہ افغان باشندوں کے مصائب کے خاتمے کے لیے مزید بھی کچھ کرسکتا ہے اور اسے کرنا چاہیے۔ بینجمن نے کہا کہ امریکہ نے وہاں جنگ پر 20 برسوں میں یومیہ 30 کروڑ ڈالر خرچ کیے اور ابھی تک انسانی ہمدردی کی اپیل پر دو دن کے مساوی بھی خرچ نہیں کیا۔
براؤن یونیورسٹی کے واٹسن انسٹی ٹیوٹ کی تحقیق کے مطابق افغانستان میں امریکی جنگ پر جو دو دہائیوں تک جاری رہی تھی دو اعشاریہ تین ٹریلین ڈالر سے زیادہ لاگت آئی تھی۔
منجمد افغان فنڈ ز کا مسئلہ
طالبان کے اگست 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد امریکی حکومت نے نیویارک میں افغانستان کے سات ارب ڈالر سے زائد کے مالیاتی ذخائر کو منجمد کردیے تھے۔ فروری میں صدر جوبائیڈن نے ایک انتظامی حکم نامے پر دستخط کیے جس میں اس فنڈ کو تقسیم کرکے تقریباً نصف ایک افغان ہیومینیٹیرین ٹرسٹ فنڈ کے لیے جاری کیاگیا اور باقی نصف رقوم نائین الیون کے متاثرین کو معاوضہ دینے کے مقدمے کے حل تک کے لیے روک لی گئیں۔
کیلی کیمبل نے کہا کہ یہ فنڈ ز نائین الیون کے خاندانوں سے تعلق نہیں رکھتے۔ ان کا تعلق امریکہ سے نہیں اورنہ ہی طالبان سے ہے۔ ان کا تعلق افغانستان کےعوام سے ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ فنڈز منجمد ہونے سے افغانستان میں انسانی بحران میں اضافہ ہوا ہے۔
کیمبل نے کہا کہ ان کی تنظیم کے275 اراکین ہیں جو نائین الیون حملوں میں ہلاک ہونےوالوں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ہم نائین الیون کے متاثرہ خاندان کے ایک اور گروپ کی جانب سے دائر کیے گئےمقدمے کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔
کیمبل اور بینجمن نے کہا کہ وہ مستقبل میں بھی افغانستان کا دورہ کرنا چاہیں گی اور اس وقت تک جنگ زدہ ملک افغانستان کے حوالے سے بہتر امریکی پالیسیوں کے لیے زور دیتی رہیں گی۔
بینجمن نے کہا کہ میں نہیں سمجھتی کہ افغانستان میں ناکام ریاست کا ہونا امریکہ یا عالمی برادری کے مفاد میں ہے۔