اقوام متحدہ کے ایک جائزے میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں تقریباً 70 فی صد خواتین کو کسی نہ کسی شکل میں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 15 سے 44 سال کی خواتین کو سرطان جیسے موذی مرض، جنگ اور حادثوں کی نسبت زیادہ خطرہ تشدد کے واقعات سے ہے۔
ایک برطانوی ادارے نے حال ہی میں تحفظ اور صحت سے منسلک مسائل کی بنیاد پر خواتین کے لیے دنیا کےپانچ خطرناک ترین ممالک کی فہرست جاری ہے جس میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔
خواتین کو تحفظ اور صحت کے حوالے سے کن ملکوں میں سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے؟ یہی سوال برطانیہ کے ایک تحقیقی ادارے ٹامس روئیٹرز فاؤنڈیشن نے پانچ ملکوں سے تعلق رکھنے والے دوسو سے زیادہ ماہرین سے پوچھاتھا۔ جس میں درجہ بندی کے لحاظ سے افغانستان کو پہلے ، افریقی ریاست کانگو کو دوسرے اور پاکستان کو تیسرے نمبر پر رکھا گیا تھا۔
لیکن ماہرین کی رائے کے اس جائزے کے طریقہ کار اور اس کے نتائج سے کئی دوسرے ماہرین اتفاق نہیں کرتے۔
جینڈر اسپیشلٹ صابرہ قریشی کا کہناہے کہ اس جائزے میں سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ یہ perception pollہے۔ تو اس میں بے شک ماہرین کی رائے تو لی گئی ہے، لیکن یہ رائے ٹھوس شواہد کی بحائے محض ان کے ذاتی قیاس پر مبنی ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس جائزے میں زیادہ لوگ شامل نہیں تھے۔ تیسرایہ کہ آپ مختلف ملکوں کی درجہ بندی کرتے ہوئے جب سنسنی خیز قسم کے نتائج سامنے لاتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ ان کا مقصد کیا ہوتا ہے۔
صابرہ قریشی کہتی ہیں کہ ان نتائج کی اہمیت زیادہ نہ ہونے کے باوجود انہیں خبر بنایا دیا جاتا ہے۔ اور ایسا بعض مخصوص سیاسی مفادات کے لیے کیا جاتا ہے۔ تاہم صابرہ قریشی کا کہناتھا کہ پاکستان میں خواتین کو درپیش خطرات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔
http://www.youtube.com/embed/i_UAc6or29I
پاکستان کے ہیومن رائٹس کمشن کے مطابق ملک میں ہر سال تقریبا ایک ہزار خواتین غیرت کے نام پر قتل کی جاتی ہیں۔ جبکہ انسانی حقوق کے ایک اور ادارے ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پاکستان میں 90 فی صد خواتین کو کسی نہ کسی وقت گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
ٹامس روئیٹرز فاؤنڈیشن کی اس رپورٹ میں بھارت چوتھے اورصومالیہ پانچویں نمبر پر تھا۔ لیکن صرف جنوبی ایشیا یا افریقی ملکوں کی خواتین کو ہی تحفظ اور صحت سے منسلک مسائل درپیش نہیں۔ بلکہ لیبیا اور شام جیسے ملکوں میں جمہوریت پسندوں اور حکومت کے درمیان تصادم سے بھی خواتین منفی طور پر متاثر ہو رہی ہیں ۔
امریکن اسلامک کانگریس کی زینب الصواج کہتی ہیں کہ وہاں پناہ گزینوں کے کیمپوں میں صورت حال تسلی بخش نہیں ہے۔ انہیں خوراک کی کمی اور حفاظت کے بھی مسائل درپیش ہیں۔ عورتیں جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بن رہی ہیں اور بچوں کی گمشدگی کی اطلاعات بھی ہیں، جس سے خواتین کو بہت سی مشکلات کا سامناکرنا پڑرہا ہے۔
زینب الصواج کہتی ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے ان ملکوں میں، جہاں جمہوریت کی تحریک بظاہر کامیاب رہی ہے، وہاں بھی تحریک کے دوران خواتین کو ملنے والی اہمیت اب کم ہوچکی ہے ۔ لیکن تیونس میں خواتین کی سیاسی کامیابیاں ان کے لیے امیدافزا ہیں۔الصواج کا کہناہے کہ تیونس میں خواتین کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں آسکتی ہیں، لیکن اس کے لیے وقت درکار ہوگا۔