امریکہ آنے والے یہاں بہت سے رنگین خواب لے کر آتے ہیں ، مگر ان میں سے کئی لوگوں کے خوابوں کو حقیقت کی بھیانک سنگینی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ایسا ہی ایک خواب دیکھا تھا ممبئی کی رتی سود نے ، جو بھارت میں اکنامکس اور میڈیا کی تعلیم حاصل کر نے کے بعد ایک اکاونٹ مینجر ، پبلک ریلیشنز آفیسر کے طور پر چار سال تک ملازمت کرچکی تھیں ۔شادی کے بعد امریکہ آنا ان کا ایک خواب تھا ۔ والدین نے ان کی شادی امریکہ میں رہنے والے ایک ڈاکٹر سے کردی اور 2002ء میں رتی سود امریکہ آگئیں ۔
مگر شادی کے فوراً ہی بعد انہیں ایک پر تشدد رشتے کا سامنا کرنا پڑا ۔ امریکہ میں ان کا نہ کوئی رشتے دار تھا نہ جاننے والا ۔ جس واحد انسان کووہ جانتی تھیں، اسی سے جان بچا کر بھاگنا چاہتی تھیں ۔
رتی کہتی ہیں کہ وہ امریکہ میں ایچ فور ویزا پر آئی تھیں اور ان کی قانونی حیثیت امریکہ آنے والے کسی غیر قانونی تارک وطن سے زیادہ نہیں تھی۔
اس وقت انہوں نے مدد کے لئے بہت سے دروازوں پر دستک دی۔ جن میں سے ایک دروازہ تھا طاہری جسٹس سینٹر ،جو تشدد سے فرار ہوکر امریکہ میں پناہ تلاش کرنے والی تارکین وطن عورتوں کی مدد کرتا ہے ۔ طاہری جسٹس سینٹر نے رتی کو قانونی حیثیت دلوانے کے لئے2003ءمیں پہلی درخواست دائر کی تھی مگر رتی کو امریکہ میں مستقل رہائش کا اجازت نامہ یا گرین کارڈ اس سال یعنی 2010 میں مل سکا ۔
رتی کا مشکل دوراب ختم ہوچکا ہے ۔۔ آج وہ میری لینڈ کی ایک کمپنی میں ریسرچ کا کام کرتی ہیں ۔۔اپنے مکان کی خود مالک ہیں اور ایک قیمتی گاڑی چلاتی ہیں ۔رتی کا کہنا ہے کہ اگر اس وقت انہوں نے ہمت سے کام نہ لیا ہوتا تو آج اپنی کہانی سنانے ہمارے درمیان موجود نہ ہوتیں ۔
انہوں نے اپنی زندگی میں آسانیاں آنےکے بعد اپنے جیسے حالات کا شکار عورتوں کی آواز بننے کا فیصلہ کیا ۔ اب رتی ریاست میری لینڈ میں گھریلو تشدد سے پناہ حاصل کرنے والی عورتوں کے ایک سینٹر میں رضاکار انہ خدمات انجام دیتی ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ اس ملک کے اجنبی آسمان نے ان پر جو مہربانی کی ہے ، اسے انہیں واپس لوٹانا ہے ۔
رتی کا قانونی سفر
رتی کی مشکلات اتنی لمبی کیسے ہوئیں؟ یہ جاننے کے لئے ہم نے بات کی رتی کی امیگریشن کی وکیل نتالی نناسی سے ۔
نتالی کہتی ہیں کہ ان کی رتی سے ملاقات ستمبر 2007ء میں ہوئی اس وقت تک وہ طاہری سینٹر کی کئی برسوں سے کلائنٹ تھیں ۔ اور ایک ایسے امیگریشن سٹیٹس میں تھیں جسے ڈیفرڈ ایکشن کہتے ہیں ۔وہ ٹائم پیریڈ جس میں رتی امیگریشن سسٹم میں آئی تھی وہ ایک طرح سے کافی منفرد تھا 2000ء میں امریکی حکومت نے یو ویزا شروع کیا تھا ۔ لیکن امریکہ میں قانونی نظام ایسا ہے کہ حکومت اگرقانون بنا بھی دے تو اسے نافذ ہونے میں وقت لگتا ہے۔
یوویزا کیا ہے ؟
یو ویزا کا باقاعدہ اجراء 2007ء میں ہوا اور تب طاہری سینٹر نے رتی کے لئے باقاعدہ یو ویزا کی درخواست دی ۔ رتی کو 2009ء کے آغاز میں یو ویزا مل گیا ۔ جس کے بعد وہ امریکہ میں رہ سکتی تھیں ،کام کر سکتی تھیں اور اپنے گرین کارڈ کے لئےدرخواست بھی دے سکتی تھیں۔ یو ویزا ایسی امیگرنٹ عورتوں اور مردوں کو دیا جاتا ہے جو امریکہ میں کسی جرم یا زیادتی کا شکار ہوئے ہوں ۔
نتالی کہتی ہیں کہ یہ ویزا نہ صرف گھریلو تشدد کا شکار خواتین کو تحفظ فراہم کرتا ہے بلکہ کسی بھی طرح کے جرم کے خلاف آواز اٹھانے کا موقعہ دیتا ہے ، ان لوگوں کو جو عام طور پر آگے آنے سےاور پولیس کے پاس جانے سے اس لئے ڈرتے ہیں کہ ان کا امیگریشن سٹیٹس نہیں ہوتا۔
امریکی ادارہ برائے سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز گزشتہ سال 2009ء میں دس ہزار تارکین کو یو ویزا زجاری کرنے میں کامیاب ہوا تھا اور اس سال یعنی 2010ء میں بھی دس ہزارمزید یو ویزا زجاری کرنے کا ہدف حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
یو ایس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز کا کردار
کرس ریٹیگن ادارہ برائے سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز میں پبلک افیئرزآفیسر ہیں ۔وہ کہتی ہیں کہ امریکی حکومت نے پچھلے کچھ برسوں میں یو ویزا اور ٹی ویزا کے ذریعے انسانی بنیادوں پر ایسے تحفظ کی فراہمی کا بندوبست کیا ہے، جس کے لئے زیادتی یا جرم کا شکار ہونے والوں کی قانونی حیثیت کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔ایسے لوگ جو جرم کا شکار ہوئے ہوں ،ایسے افرادجو قانونی طور پر سیاحتی ویزے پر امریکہ آئے ہوں یا امریکہ میں کام کرنے والے کسی شخص کے ساتھ آئے ہوں ، تو اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ یا تو ان کا ویزا ختم ہو جاتا ہے یا وہ شخص جو ان کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے یا جرم کرنا چاہتا ہے وہ ان کا پاسپورٹ چھین لیتا ہےاور ان کو کوئی جھوٹی کہانی سناتا ہے کہ اگر تم نے وہ نہ کیا جو میں کہتا ہوں تو میں حکومت کو تمہاری شکایت کر دوں گا ۔ مگر ہم ایسے لوگوں سے کہتے ہیں کہ وہ اس بات سے بالکل پریشان مت ہوں ۔ آگے آئیں ہم یہاں ان کی حفاظت کے لئے ہیں ۔
کرس ریٹیگن کہتی ہیں کہ امریکی ادارہ برائے شہریت اور ا میگریشن یو ویزا کے لئے آنے والی درخواستوں میں زیادتی یا جرم کے دعوے کی تصدیق کے لئے اپنے سپیشلائزڈ کرائم وکٹم یونٹ کی مدد حاصل کرتا ہے اورہر کیس کی مکمل تحقیق کے بعد ہی تشدد کا شکار شخص کو یو ویزا دینے کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔امریکی ادارہ برائے سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز انسانی بنیادپر مہیا کئے گئے اس خصوصی ویزے کی تشہیر کے لئے ذرائع ابلاغ اور طاہری جیسے سماجی فلاحی اداروں کی خدمات بھی حاصل کرتا رہتا ہے ۔ تاکہ امریکہ میں کہیں بھی کوئی تارک وطن کسی زیادتی کا شکارہے تو اپنی قانونی حیثیت سے قطع نظر قانون کی مدد طلب کرے ۔
یو ایس سی آئی ایس اور گھریلو تشدد
کرس ریٹین کہتی ہیں کہ یو ایس سی آئی ایس کی ویب سائٹ پر ایک تصویر ہے ۔۔ اس میں آپ نیچے جاتے جائیں تو آپ کو گھریلو تشدد اور عورتوں کے خلاف تشدد کا ذکر ملے گا اور اس بارے میں مکمل رہنمائی بھی وہیں موجود ہے ۔ کرس ریٹیگن کے مطابق یو ایس سی آئی ایس کے عملے کے سترہ سے اٹھارہ ہزار افراد امریکہ آنے والے بہت سے لوگوں کے خواب ٹوٹنے سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
متاثرہ خواتین کے لیے مفت قانونی خدمات
ایسا ہی خواب رتی سود کا تھا جسے ٹوٹنے سےبچانے میں مدد کی طاہری جسٹس سینٹر نے ۔جو رتی اور ان جیسی دیگر تارکین وطن خواتین کو 13 سال سے بلا معاوضہ قانونی مدد فراہم کر رہا ہے ۔
طاہری جسٹس سینٹر کی بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر لیلی ملر مورو کہتی ہیں کہ ان کا ادارہ جن اقلیتی کمیونٹیز کی خواتین کی مدد کرتا ہے ، ان سبھی میں خاندن کی عزت بہت اہم ہوتی ہے۔وہ آگے سے ڈرتی ہیں ،اپنے خاندانوں کو شرمندہ کرنے سے ڈرتی ہیں اور ان کے لئے ایک انجان ملک میں ، جس کی زبان اجنبی اور ماحول بیگانہ ہو، اپنے اکلوتے ٹھکانے کو چھوڑکر غیروں سے مدد مانگنے کی ہمت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا ۔اگر کسی عورت کا امیگریشن سٹیٹس اس کے شوہر سے جڑا ہوا ہے مگر اس کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے ، تو ہم اسے امریکہ میں رہائش کی قانونی اجازت اور حیثیت دلوانے میں مدد کرتے ہیں اور تشدد سے بچاتے ہیں ۔
گھریلو تشدد ، غیرت کے نام پر قتل ، نسوانی اعضاء کے کاٹے جانے سمیت تشدد کی مختلف اقسام سے امریکہ میں جان کی امان تلاش کر تی تارکین وطن عورتوں کی مدد کے لئے اٹھارویں صدی کی ایک ایرانی شاعرہ طاہری کے نام پر قائم کیا گیا۔ یہ ادارہ لیلی ملر مورو نے 1997ءمیں اپنی ایک کتاب سے حاصل ہونے والے منافع سے قائم کیا تھا ، یہ کتاب لیلی ملر کی ایک کلائنٹ کی کہانی پر مبنی تھی جس نے نسوانی اعضاء کاٹے جانے کی قبائلی رسم سے بچنے کے لئے طاہری سے رجوع کیا تھا ۔ لیلی ملر کی یہ کتاب ’’ Do you hear when the cry ‘‘دنیا کے مختلف ممالک میں14 زبانوں میں ترجمہ ہوئی۔
طاہری جسٹس سینٹر اپنے 30 افراد کے باقاعدہ عملے ، تین شہروں میں قائم دفاتر اور 50 امریکی ریاستوں میں رضا کارانہ خدمات فراہم کرنے والے وکلاء کے 165 اداروں کی مدد سے اب تک دس ہزار تارکین وطن خواتین کو قانونی تحفظ اور امریکہ میں مستقل رہائش کا موقعہ فراہم کر چکا ہے ۔لیلی ملر کہتی ہیں کہ ان کا ادارہ اپنے کلائنٹس کو قانونی مدد مہیا کرتا ہے مگر ان کے سٹاف میں سوشل ورکرز بھی ہوتی ہیں جو تشدد کا شکار تارک وطن خاتون کوسر چھپانے کی جگہ فراہم کرنے ،بچوں کی دیکھ بھال اور اپنے پاوں پر کھڑا ہونے میں مدد دیتی ہیں ۔
لیلی کہتی ہیں کہ امریکہ میں قانونی پیروی کے اخراجات اٹھاناانتہائی مہنگا کام ہے اور جان کے خوف سے پناہ تلاش کرتی کسی تارک وطن خاتون کا ان اخراجات کو اٹھانے کے قابل ہونا عموما ایک غیر معمولی صورتحال ہوتی ہے مگر لیلی ملر طاہری کو اس لحاظ سے منفرد قرار دیتی ہیں کہ یہ نہ صرف اپنے کلائنٹس کو بلا معاوضہ اپنی خدمات فراہم کرتا ہے بلکہ اپنے کلائنٹس کی بہادری اور جدو جہد کی کہانیوں سے ذرائع ابلاغ اور امریکی حکومت کے ایوانوں میں پبلک پالیسی ایڈووکیسی بھی کرتا ہے ۔
اگرچہ طاہری کے 20 فیصد کلائنٹس کا تعلق پاکستان بھارت یا بنگلہ دیش سے ہے ، لیلی ملر کہتی ہیں کہ مدد کے لئے ان سے رجوع کرنے والی عورتوں میں امریکہ میں رہنے والے ہر نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والی عورتیں شامل ہیں ۔
انٹرنیٹ میرج بروکرز اور گھریلو تشدد
دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح امریکہ میں بھی گزشتہ کچھ عرصے سے ای میل برائیڈز یا انٹرنیٹ کے ذریعے ڈھونڈی گئی دلہنوں کی تلاش کا رجحان زور پکڑ رہا ہے ۔ جن میں سے بہت سی خواتین ایسی ہوتی ہیں جو شادی کرانے والے بین ااقوامی اداروں (انٹرنیشنل میرج بروکرز )کے ذریعے کسی ترقی پذیر ملک سے امریکہ آتی ہیں ۔
لیلی ملر کہتی ہیں کہ کچھ شادیاں بالکل ٹھیک بھی ہوتی ہیں لیکن کچھ میں زیادتی شامل ہوتی ہے ۔انٹر نیٹ کے ذریعے ہزاروں میل کے فاصلے سمیٹتی ایسی کئی جادوئی شادیوں میں دلہن والوں کو دولہا کے بتائے گئے کوائف غلط اور شادی کی بنیاد جھوٹ پر رکھی جاتی ہے ۔ ایسی شادیوں میں زیادتی کے خلاف آواز اٹھانےوالی عورتوں کو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ کئی بار انہیں انگلش بولنی نہیں آتی ۔ انہیں امریکی قوانین کا پتہ نہیں ہوتا ۔ کوئی دوست نہیں ہوتے ۔ وہ بہت کمزور ہوتی ہیں ۔
انٹرنیشنل میرج بروکر ریگولیشن ایکٹ
طاہری جسٹس سینٹر کی چار سال کی مسلسل کوششوں سے جنوری 2006ء میں امریکہ میں گھریلو تشدد کے خلاف موجود قانون (وائلنس اگینسٹ ویمن ایکٹ)میں ایک نئی شق کا اضافہ کیا گیا ۔جسے انٹرنیشنل میرج بروکر ریگولیشن ایکٹ کا نام دیاگیا ۔
اس امریکی قانون کے تحت رشتے کرانے والے بین االاقوامی اداروں کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ شادی کے خواہش مند شخص کی امریکہ آنے والی متوقع بیوی کو اس کی تمام مجرمانہ ہسٹری سے آگاہ کریں گے ۔جبکہ امریکی ادارہ برائے شہریت اورامیگریشن یو ایس سی آئی ایس کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ کے ون اور کے تھری ویزوں پر ہر سال امریکہ آنے والی تقریبا 44 ہزار غیر ملکی بیویوں کوان کے قانونی حقوق اور تشدد یا زیادتی کی صورت میں طاہری جیسے مدد کے اداروں تک پہنچنے کے متعلق معلومات کی فیکٹ شیٹ مہیا کرے گا ، جس سے امریکہ میں انہیں ایسی غیر ضروری مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔
امریکہ میں گھریلو تشدد اور کمیونٹی ادارے
امریکی ادارے نیشل کو الیشن اگینسٹ ڈومیسٹک وائلنس کے اندازے کے مطابق امریکہ میں گھریلو تشدد کا شکار خواتین میں 45 فیصد امریکی جبکہ 51 فیصد تارکین وطن خواتین ہیں۔
امریکہ کی مسلمان کمیونٹی سمیت تمام اقلیتی کمیونٹیز میں ایسی خواتین کی مدد کے لئے ایسے کئی ادارے کام کر رہے ہیں جو مساجد اور عبادت گاہوں میں مختلف اقلیتی کمیونٹیز کی اپنی زبان میں ایسے رہنما کتابچوں کی فراہمی کا بندوبست کرتے ہیں ، جہاں خواتین کی ان تک رسائی با آسانی ممکن ہو سکے۔
لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ امریکہ میں روزانہ اوسطا تین عورتیں گھریلو تشدد سے ہلاک ہو تی ہیں ۔ہر سال اوسطاً 16 ہزار آٹھ سو عورتیں اپنے شوہر یا مرد ساتھی کے ہاتھوں مجرمانہ حملے کا نشانہ بنتی ہیں جبکہ قتل کے رپورٹ ہونے والے کیسز میں ہلاک ہونےو الی خواتین کی ایک تہائی تعداد شوہر یا بوائے فرینڈ کے ہاتھوں اپنی جان گنواتی ہے ۔
لیلی ملر کہتی ہیں کہ ان کے ادارے کو ایک ہفتے میں اوسطا 30 سے 50 فون کالز موصول ہوتی ہیں ۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گھریلو تشدد دنیا کے اور ملکوں کی طرح امریکہ میں بھی سب سے کم رپورٹ ہونے والا جرم ہے ۔
گھریلو تشدد کے حوالے سے اپنی اس طویل رپورٹ میں ہم نے آپ کی ملاقات جن کرداروں سے کراوئی وہ اپنی اپنی جگہ، اپنے اپنے دائروں میں کوئی نہ کوئی تبدیلی لانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر وہ یہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج وہ جہاں ہیں ، وہاں سے ان کا سفر ختم نہیں ۔۔۔شروع ہورہا ہے ۔