افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر طالبان کی عائدہ کردہ منظم پابندیوں سے انہیں متعدد ایسے امراض کا سامنا ہے جو پابندیوں کے جاری رہنے کی صورت میں موت کا باعث بن سکتی ہیں اور ایسا ہونا 'نسوانی قتل عام' کے مترادف ہو گا۔
یہ بات اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے مقرر کردہ ماہرین نے ملک کے آٹھ روزہ دورے کے بعد بتائی۔ آزاد انہ طور پر کام کرنے والے یہ ماہرین اگلے ماہ دورۂ افغانستان سے متعلق اپنی ایک مفصل رپورٹ پیش کریں گے۔
اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے ان ماہرین نے کہا کہ ایک افغان خاتون نے پابندیوں سے دشوار حالات کے بارے میں بتایا کہ "ہم زندہ ہیں مگر جی نہیں رہے۔"
Your browser doesn’t support HTML5
ایک مشترکہ بیان میں ماہرین نے نوٹ کیا کہ وہ ذہنی صحت کے وسیع مسائل اور خواتین اور لڑکیوں میں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کے بارے میں فکر مند ہیں۔
پابندیوں کے اثرات
طالبان کی طرف سے سن 2021 میں افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے پابندیوں کو " صنفی بنیاد پر امتیاز" قرار دیتے ہوئے ماہرین نے کہا کہ یہ پابندیاں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو منظم طریقے سے چھیننے کے برابر ہیں۔
بیان میں ماہرین نے کہا کہ افغانستان میں جاری ان "خوفناک" انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں نے طالبان دور سے پہلےسے ملک میں چلے آرہے صنفی بنیاد پر امتیازی سلوک کے ان دیگر پہلوؤں پر پردہ ڈال دیا ہے جو اب "معاشرے میں گہرے طور پر جڑے ہوئے ہیں اور معمول بن چکے ہیں۔"
Your browser doesn’t support HTML5
خیال رہے کہ افغانستان میں خواتین کو چھٹی جماعت سے آگے کی تعلیم کے لیے اسکول اور یونیورسٹی جانے پر طالبان کی طرف سے پابندی نافذ ہے۔ مزید یہ کہ صرف خواتین ڈاکٹر ہی خواتین کی صحت کی دیکھ بھال کرسکتی ہیں۔
اس کے علاوہ ، طالبان کی پابندیوں نے خواتین کو اقوام متحدہ اور غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) میں کام کرنے سے روک دیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
گھر میں نظر بندی کی زندگی
افغانستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پر خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ اور ورکنگ گروپ کی چیئر ڈوروتھی نے اپنے دورے کے دوران طالبان رہنماؤں اور کابل، مزار شریف اور بلخ میں بعض خواتین سے بات کی۔
متعدد خواتین نے انسانی حقوق کے علم برداروں سے ملاقاتوں میں اپنے خوف اور انتہائی تشویش کے جذبات کا اظہار کیا اور اپنی صورت حال کو گھر میں نظربند زندگی" کے طور پر بیان کیا۔"
انہوں نے کہا کہ ہمیں خاص طور پر اس حقیقت پر بھی تشویش ہے کہ جو خواتین ان جابرانہ اقدامات کے خلاف پرامن طور پر احتجاج کرتی ہیں انہیں دھمکیوں، ہراساں کیے جانے، حراست اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انسانی حقوق کے ماہرین نے جنوبی افریقہ کے نسلی امتیاز کے دور کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو افغانستان میں جاری اس "صنفی امتیاز" کے معاملے پر چشم پوشی سے کام نہیں لینا چاہیے۔